جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں اولمپکس میلے کا میدان سج گیا ہے۔ مجموعی طور پر اس ایونٹ میں 11326اتھلیٹ شرکت کر رہے ہیں‘ سب سے بڑا دستہ امریکہ کا ہے جو 613اتھلیٹس پر مشتمل ہے اور پاکستان کی طرف سے تین خواتین سمیت صرف 10اتھلیٹ اس عالمی ایونٹ میں حصہ لے رہے جبکہ آفیشل کی تعداد 12ہے۔ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے اور اب ہمارا حال یہ ہے کہ ٹوکیو اولمپکس کے لئے پاکستان کی ہاکی ٹیم کوالیفائی ہی نہیں کر سکی اور 90ء کی دہائی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہاکی کے تمام عالمی اعزاز ت پاکستان کے پاس تھے۔ قومی کھیل سے ارباب اقتدار کی یہ بے اعتنائی انتہائی افسوسناک ہے‘ گوجرانوالہ کے پہلوان انعام بٹ جو کئی عالمی تمغے جیت چکے ہیں، اولمپکس کی تیاری کے لئے چیختے رہے‘ لیکن کسی نے ان کی ایک نہیں سنی‘ نتیجتاً وہ بھی اولمپکس میں شرکت نہ کر سکے۔ اب سارا انحصار دس رکنی اتھلیٹ دستے پر ہے۔ پاکستان نے آخری بار 1992ء کے بارسلونا اولمپکس میں ہاکی ہی کے میدان میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا‘ 29سال گزر گئے اس کے بعد چھ بار اولمپکس ہوئے مگر پاکستان کی جھولی تمغوں سے خالی رہی۔ سوال یہ ہے کہ کھیلوں کے لئے مختص فنڈز کہاں خرچ کیے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس پر اولمپک ایسوسی ایشن یا حکومت کے کسی ذمہ دار کی توجہ نہیں ۔ پاکستان میںہاکی،کشتی،باکسنگ کے بے حد ٹیلنٹڈ کھلاڑی موجود ہیں ان پر توجہ دی جائے تاکہ ہمارا دامن بھی تمغوں سے خالی نہ رہے۔