ایک اندازے کے مطابق 58 لاکھ فرزندانِ و دُخترانِ پاکستان بسلسلہ تعلیم، ملازمت و کاروبار بیرونی ملکوں میں مقیم ہیں ۔1962ء سے سکاٹ لینڈ کے شہر گلاؔسگو میں مقیم ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی اُن فرزندانِ پاکستان میں شامل ہیں جن کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ جن کی بہوئیں اور داماد پاکستانی نژاد ۔ پنجاب کے ضلع تلہ گنگ کے موضع ڈُھلی کے ’’تحریک پاکستان ‘‘کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ملک حاکم خان ( مرحوم) کے فرزند ہیں۔ اُنہوں نے ضلع تلہ گنگ میں اپنے قبیلے کے لوگوں کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا ہُوا ہے اور لاہور میں بھی جہاں اُن کی 1960ء میں شادی ہُوئی تھی۔ ملک غلام ربانی اور بیگم زبیدہ غلام ربانی کا 1982ء سے ماڈل ٹائون لاہور میںاپنا گھر ہے ۔ گھر کیا ہے ؟ ایک ڈیرہ ہے۔ معزز قارئین!۔ 20دسمبر 2018ء کو ’’ بابائے امن‘‘ پھر لاہور میں تھے ۔ ایک سماجی کلب میں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے وائس چیئرمین میاں فاروق اختر میزبان ۔ میاں صاحب کے ظہرانہ میں ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکنان اور مُلک کے چُنیدہ دانشور ، صحافی(Cream of the Nation)بھی شریک تھے۔ چیئرمین ’’کارکنانِ تحریکِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ (ر) میاں محبوب احمد ، وائس چیئرمین ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ جسٹس (ر) خلیل اُلرحمن خان ، روزنامہ ’’92 نیوز ‘‘ کے گروپ ایڈیٹر سیّد ارشاد احمد عارف ، روزنامہ ’’جرأت ‘‘ کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی، روزنامہ ’’ پاکستان‘‘ کے چیف ایڈیٹر مجیب اُلرحمن شامی، روزنامہ ’’ خبریں‘‘ کے چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد، روزنامہ ’’ نئی بات‘‘ کے گروپ ایڈیٹر ، پروفیسر عطاء اُلرحمن ، روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اشرف شریف ، روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن سعید آسی ، اجمل نیازی اور محفلوں کی جان ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید ۔ مہمانوں سے گفتگو کا آغاز ، دورۂ عوامی جمہوریہ چین کی روشنی میں میزبان ، میاں فاروق الطاف نے کِیا تو، برادران سیّد ارشاد احمد عارف اور مجیب اُلرحمن شامی نے بات سے بات نکالنے کے علم و فن کا مظاہرہ کِیا ۔ جمیل اطہر قاضی ، ضیاء شاہد اور سعید آسی ؔ نے اُن کی ’’ ہاں میں ناں ‘‘ اور ’’ ناں میں ہاں‘‘ کے کمالات دِکھائے۔ بابائے امنؔ، چونکہ ’’گرم و سرد چشیدہ ‘‘ ( تجربہ کار ) ہیں وہ ، ہر طرف مسکراہٹوں کے پھول بکھیرتے رہے۔ سب سے اہم مسئلہ تھا ’’ عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان کے حکمرانوں کا "Protocol" ( سرکاری ، سفارتی آداب و رسوم و تشریفات) کا تھا، جس کی وجہ سے ہر دَور کے حکمرانوں کی عوام سے دوری رہی۔ معزز قارئین!۔ مَیں پہلی بار ستمبر 1981ء میں برطانیہ کے ڈیڑھ ما ہ کے دورے پر گیا تو سات دِن تک سکاٹ لینڈ کے شہر ’’گلاسگو‘‘ میں بھی رہا۔ گلاسگو میں پاکستان ہائی کمشن کے Counselor" " خان ولی خان کے دفتر میں ملک غلام ربانی نے (جو اُن دِنوں ’’ بابائے گلاسگو‘‘ کہلاتے تھے)، مجھ سے کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ جے تُسِیں گلاسگو تے گلاسگو واسیاں نُوں ویکھنا اے تاں میریاں اَکھّاں نال ویکھو!۔ اردو سپیکنگ خان ولی خان تے آپ گلاسگو تے گلاسگو دے لوکاں لئی اجنبی نیں‘‘۔ معزز قارئین!۔ پھر یہ ہُوا کہ مَیں ’’بابائے گلاسگو‘‘ کی محبت کے جال میں پھنس گیا اور آج تک آدم گیر ’’ بابائے امن‘‘ کے جال میں پھنسا ہُوا ہُوں !۔ مَیں نے ایک ہفتہ میں گلاسگو اور اہلِ گلاسگو کو ’’ بابائے گلاسگو‘‘ کی آنکھوں سے دیکھا ۔ پیار اور محبت بھری آنکھوں سے ۔ مجھے ’’ بابائے امن‘‘ نے جس پہلے گلاسگو واسی سے ملایا، اُن کا نام تھا / ہے چودھری محمد سرور ۔ چودھری صاحب اُن دِنوں سیاست میں نہیں تھے لیکن، مجھے گلاسگو کی معتبر شخصیات نے بتایا کہ ’’ چودھری صاحب ہر پاکستانی نژاد بیروزگار نوجوانوں کو پانچ ہزار "British Pounds" (قرضِ حسنہ) کے طور پر دے دیتے ہیں ، اِس شرط پر کہ ’’ جب تُم ’’قرضِ حسنہ ‘‘ واپس کرنے کی پوزیشن میں ہو جائو تو، میری موجودگی میں یہ پانچ ہزار پائونڈز کسی بیروزگار پاکستانی نوجوان کو ’’ قرضِ حسنہ ‘‘ کے طور پر دے دینا‘ ‘۔ ایک بار 2006ء میں چیئرمین ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ اسلام آباد ، برادرِ عزیز ظفر بختاوری میرے ساتھ تھے اور لندن میں میرا قانون دان بیٹا انتصارعلی چوہان بھی‘ میں نے بتایا کہ مَیں نے 1960 ء میں مسلکِ صحافت اختیار کِیا۔ پھر لاہور میرا خوابوں کا شہر بن گیا ( اب بھی ہے ) لیکن ’’ بابائے امن‘‘ اور اہلِ گلاسگو کی محبت سے گلاسگو بھی میرا خوابوں کا ؔشہر بن گیا ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ چودھری محمد سرور 1981ء میں تو’’ بابائے امن‘‘ کو اپنابزرگ تسلیم کرتے ہی تھے لیکن، 5 اگست 2013ء سے 29 جنوری 2015ء تک گورنر پنجاب کی حیثیت سے اور اب 5 ستمبر 2018ء کو دوبارہ گورنر شِپ سنبھالنے کے بعد بھی اپنا بزرگ ہی سمجھتے ہیں ۔ 20 دسمبر کے ظہرانے میں مولانا خُوشی محمد جوش ؔاور بیگم صفیہ اسحاق اپنے اپنے انداز میں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جناب مجید نظامی کو یاد کر رہے تھے اور ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے پانچ درویش ، چودھری ناہید عمران گِل، محمد سیف اللہ چودھری ، علاّمہ نعیم احمد ، حافظ عثمان احمد اور حمزہ چغتائی مہمانوں کی خدمت میں کافی سنجیدہ تھے ۔ معزز قارئین!۔ مَیں عارضۂ جگر سے صحت یاب ہو چکا ہُوں ، لیکن نقاہت کے باعث تقریبات میں شرکت سے گریزکرتا ہُوں ،اِس کے باوجود دوستوں / رشتہ داروں کی بیٹیوں کی شادیوں میں ضرور شرکت کرتا ہُوں ۔ 24 نومبر 2018ء کو برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف( گیلانی) کی صاحبزادی سیّدہ آمنہ شاہ کی ( لندن واسی ) سیّد حسن علی شاہ گیلانی سے شادی میں چیئرمین "PEMRA" برادرِ عزیز پروفیسر محمد سلیم بیگ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے شادی ہال میں لے گئے۔ مجھے خُوش فہمی ہے کہ شادی کے شرکاء اِسے میری اور سلیم بیگ صاحب کی محبت کا انداز سمجھتے ہوں گے ؟۔ 20 دسمبر کے ظہرانے اور اُسی شب لاہور میں "Sitara Group of Industries" کے چیئرمین میاں محمد ادریس کی نواسی ( ماہِ نور صدیق ) کی شادی کی تقریب میں برادرِ عزیز اشرف شریف نے میرا ہاتھ پکڑا ہُوا تھا۔ میرے خیال میں ، تب بھی میری نقاہت پر پردہ پڑا رہا؟۔ کئی سال پہلے میاں محمد ادریس سے بھی میرا تعارف ’’ بابائے امن‘‘ ہی نے کرایا تھا۔ ایک بارمجھے اُن سے ملوانے ’’بابائے امن‘‘ او ر بھابھی زبیدہ ؔغلام ربانی اپنے ساتھ فیصل آباد لے گئے تھے ۔ اُن دِنوں گورنر پنجاب چودھری محمد سَرور گلاسگو میں تھے اور مَیں بھی ، جب 4 اکتوبر 2013ء کو ’’ ستارہ گروپ آف انڈسٹریز ‘‘ کے بانی چیئرمین (میاں محمد ادریس کے والد صاحب ) حاجی بشیر احمد امرتسری کے انتقال کی خبر وہاں پہنچی تو، گھر ، گھر صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔ مجھے اُسی روز پاکستان واپس آنا تھا تو، ’’ بابائے امن‘‘ اور گلاسگو کے کئی لوگ حاجی بشیر احمد صاحب کی رسمِ قل میں شریک ہونے کے لئے فیصل آباد کی تیاری کر رہے تھے ۔ ایک بار مجھے میاں محمد ادریس نے بتایا تھا کہ ’’مَیں نے لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ، مَیں 1988ء میں چھ ماہ تک گلاسگو میں چاچا جی ملک غلام ربانی اور چاچی جی بیگم زبیدہ ربانی کے گھر میں مہمان رہا‘‘۔ پھر کیا ہُوا؟۔ ستمبر 1981ء سے دسمبر 2016ء تک مَیں کتنی بار گلاسگو گیا ؟ مجھے یاد نہیں لیکن ، جب بھی مَیں گیا تو ’’بابائے امن ‘‘ (اور بعد ازاں ) چودھری محمد سرور کے دوست ،احباب نے میرے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام کِیا۔ خاص طور پر مشاعروں کا ، جن میں مَیں صدر مشاعرہ یا مہمانِ خصوصی ہوتا تھا ۔ گلاسگو میں ہر سال ’’ جشنِ گلاسگو‘‘ کا اہتمام کِیا جاتا ہے ۔ مَیں نے 2006 ء کے ’’ جشنِ گلاسگو‘‘ کے لئے ’’ بزمِ شعر و نغمہ ‘‘ کی چیئرمین پرسن (شاعرہ) محترمہ راحت زاہد اور ’’ گلاسگو انٹر کلچرل آرٹس گروپ‘‘ کے چیئرمین شیخ محمد اشرف کی فرمائش پر ایک نغمہ لِکھا جسے پاکستان کے کئی معروف گلوکاروں نے مل کر گایا ۔نغمے کے تین شعر ہیں … جدوجہد کی امر کہانی! بابائے امن ؔغلام ربانی! …O… امن و اماں کا ، سفینہ جیسے! لوگ ہیں ،اہلِ مدینہؔ جیسے! …O… سب سے نرا لا، سب سے ، جُدا ہے! شہر گلاسگو، شہر وفاؔ ہے!