دربہاراں گل نوخواستہ سبحان اللہ جلوہ آرا ہے وہ بالواسطہ سبحان اللہ ایسا ہنستا ہوا چہرہ کبھی دیکھا ہی نہ تھا کہہ دیا میں نے بھی بے ساختہ سبحان اللہ اللہ کی پاکی بیان کرنے کے لیے پوری کائنات ہے۔ پتہ پتہ بوٹا بوٹا اسی حال میں ہے کہ خالق کی صفات کا آئینہ دار ہے۔ گل بوئے کلام کرتے ہیں اور اس میں کیا کلام کہ ہر ذی روح اس کی تسبیح بیان کرتا ہے۔ پتھر میں کیڑا اور کیڑے کے منہ میں سبز پتی جیسا منظر محرالعقول ہی تو ہے۔ یہ سب بلند و بالا خیال در ادراک پر دستک دیتے ہیں اور ارفع و اعلیٰ سوچ کو انگیخت لگاتے ہیں۔ میں اس حوالے سے لکھتا جائوں ایک نامختتم سلسلہ شروع ہو جائے۔ میں تو مگر یونہی عام فہم سی کچھ باتیں عرض کرنے بیٹھا ہوں کہ خاک بسروں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کچھ وقت کے لیے موجود بے امان اور اداس موسم میں ذرا سا محظوظ ہو لیا جائے۔ ہمیں پتہ تو چلے کہ ہمارے پاس کیسے کیسے نابالغ موجود ہیں جو چاند پر پیوند لگاتے ہیں اور ستارے توڑ کر لاتے ہیں۔ کیسی کیسی چنگاڑیاں اس خاکستر میں ہیں۔ اس سے بھی پہلے ایک خوش کن بات یہ کہ کورونا کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مشکل کے ساتھ آسانی بھی رکھی ہے۔ مجھے اس خبر نے طمانیت بخشی کہ ہمارا دوست سہیل وڑائج جوکہ میرا کلاس فیلو بھی ہے روبہ صحت ہو گیا ہے۔ اس کی چمکتی شرارتی پتلیاں زندگی سے کس قدر بھرپور ہیں۔ دل سے دعا نکلتی تھی کہ اللہ اس گھر کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ اس کے بعد ہمارے پیارے شاعر محمد عباس مرزا بھی ایک اذیت سے نکل آئے ہیں۔ وہ تو ویسے ہی عاشق رسولؐ ہیں اور ایک نجیب شخص ہیں۔ ایسے ایسے پنجابی بیت انہوں نے کہے ہیں کہ بندہ لطف سے بھیگ جاتا ہے: اڈن والا سپ یقینا ہووے گا کنیں بول نیں جیڑے اڈ کے ڈنگدے نیں اللہ کا شکر کہ وہ بحال ہوئے اور اب ایک خوشی کی خبر ہمارے کرکٹر پروفیسر محمد حفیظ کا ٹیسٹ دوسری لیبارٹری سے منفی آ گیا۔ انشاء اللہ باقی کرکٹرز کی خبر بھی غلط ثابت ہوگی۔ بس بات اتنی ہی کہ اللہ سے بہت اچھی امید رکھیں وہ سب کچھ آپ کی خواہش کے مطابق کردے گا۔ مجھے روبینہ اشرف کا ذکر بھی کرنا تھا کہ اس کی بیٹی کا خوشی بھرا پیغام چھپا کہ وہ اپنی والدہ کی صحت یابی پر نہال ہے۔ روبینہ اشرف بھی ہماری بیج فیلو ہے۔ وہ فائن آرٹس میں تھی اور ہم ایم اے انگریزی کر رہے تھے اولڈ کیمپس میں۔ کس طرح وقت بیت گیا اور سارے رنگ خواب ہو گئے۔ زندگی کو تو رواں دواں رہنا ہے۔ باقی تو صرف اللہ کی ذات ہے جو رہے گی۔ چلیے اب آتے ہیں ہم اس دلچسپ تذکرے کی طرف جو سوشل میڈیا پر بہار دکھا رہا ہے۔ یہ آگہی بھی تو ہمارے قارئین کو ملنی چاہیے کہ زرتاج گل نے کیا گل افشانی کی اور ریاض فتیانہ کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ ویسے تو پی ٹی آئی میں ’’ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں‘‘ والی بات ہے۔ تحقیق کی حد ہے اور محققین لاتعداد ہیں۔ ایک مرتبہ سنگ میل والے نیاز احمد نے مجھے بتایا کہ فلاں ادیب و شاعر کو تحقیق پر ایوارڈ ملا ہے۔ میں نے کہا قبلہ وہ تو محقق ہے ہی نہیں‘ پھر تحقیق کون سی۔ وہ رسان سے بتانے لگے کہ جناب وہ فوراً بتا دیتے ہیں کہ سامنے والے شخص کے گھٹنے کہاں ہیں۔ سبحان اللہ‘ کیا تحقیق ہے۔ اس کلچر کا ممتاز ترین نمونہ مراد سعید ہے۔ اس حوالے سے پنجابی کا لفظ بونگیاں بھی جواب دے جاتا ہے۔ چلیے چھوڑیئے اس بات کو۔ تاہم زرتاج گل کی نئی تحقیق سے اب ضرور لطف اٹھائیں کہ کووڈ 19 سے مراد 19نکات ہیں اور ہر ملک انہیں اپنی ضروریات کے مطابق استعمال کرسکتا ہے۔ اس بے چاری کو چنداں علم نہیں کہ یہ دو ہزار انیس میں دریافت ہونے والا وائرس ہے اور مخفف Covid 19 لکھا جاتا ہے۔ آپ محترمہ کو عورتوں کی اسلم رئیسانی کہہ سکتے ہیں۔ رئیسانی صاحب تو خیر ہنس ہنس کر نکتہ آفرینی کرتے تھے‘ محترمہ سنجیدگی سے بات کرتی ہیں اور عمران خان مقابلہ شرمیلی مسکراہٹ روک نہیں پاتے۔ اسلم رئیسانی کی جعلی ڈگری والی بات سے یاد آیا کہ تازہ خبر کے مطابق کراچی طیارہ کیس کے ضمن میں پتہ چلا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 کی ڈگریاں جعلی۔ ہم تو جعلی ڈگریوں والی اسمبلی پہ روئے تھے یہاں تو آوا ہی بگڑا ہوا ہے: اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے دوسری بڑی تحقیق ریاض فتیانہ کی ہے کہ ’’ٹڈیاں کھانے سے کورونا ختم ہو سکتا ہے۔‘‘ میں تفصیل میں تو نہیں جا سکا تاہم انہوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس ضمن میں تحقیق کروائے تو کئی مسئلے حل ہو جائیں گے۔ یعنی ایک تیرے سے دو نشانے یا ایک پنھ دوکاج۔ ایک تو اس تحقیق کی کامیابی پر ٹڈی دل ختم ہو جائے گا۔ یہ دل ہے یعنی دل پر زبر ہے جسے شبلی فراز نے زیر لگا کر دل بتا دیا تھا۔ خیر دوسرا فائدہ تو بہت زیادہ ہے کہ اگر اس سے کورونا ختم ہوتا ہے تو پھر اس سے ویکسین بھی تیار ہو سکتی ہے اور اسے برآمد کیا جا سکتا ہے۔ ویسے اگر ایسا ہو گیا تو حکیم ہمارے پاس موجود ہیں۔ ہمارے معروف حکیم جمیل ہیں جو بڑے پیمانے پر ان ٹڈیوں کا معجون تیار کروا سکتے ہیں۔ اس معاملے میں چین کی خدمات لی جا سکتی ہے۔ کروڑوں ٹڈیوں کو پکڑنے کے نئے طریقے بھی سوچے جائیں گے۔ آپ ریاض فتیانہ کی تجویز کو ایسے ہی نہ پھینکیں کہ آپ کو معلوم ہے کہ ڈینگی وبا کے دنوں میں پپیتے کے پتے کتنے گراں بکے تھے۔ ایک ایک پتہ پانچ صد میں بکا تھا اور کچھ ہو نہ ہو اگر ٹڈیوں والی بات لوگوں کے ذہن نشین کروا دی جائے تو یہ بے قیمت ٹڈیوں کے بھاگ جاگ جائیں۔ خیر بھاگ تو کاروباری لوگوں کے جاگیں گے۔ وہ بے چاری تو جان سے جائیں گی۔ اس حولے سے بل گیٹس سے بھی رابطہ ہوسکتا ہے۔ ٹڈی دل عالمی مسئلہ ہے اور کورونا بھی عالمی مسئلہ۔ اگر ہماری تحقیق کامیاب ہوتی ہے تو ایک عالمی مسئلے کا عالمی حل سامنے آ جائے گا۔ بھارت میں تو گائو متر پر تحقیق ہورہی ہے اور اس گائو متر کو ہر بیماری کا علاج بتایا گیا ہے۔ اس سے انہوں نے بھی ڈبل فائدہ اٹھایا ہے کہ ایک تو گائو متر سے گندگی کو پھیلنے نہیں دیا جاتا۔ سیدھا اسے بوتلوں میں محفوظ کرلیا جاتا ہے اور پھر وہ بوتلیں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ ان کے پرودھان منتری مرار جی ڈسائی تو باقاعدہ گائو متر استعمال کرتے رہتے ہیں کہ شاید یہ قلب و جگر کے لیے بھی مقوی ہے۔ مجھے لگتا ہے کووڈ 19 کے ضمن میں یہ تحقیق ہوتے ہوئے واپس چمگادڑوں تک پہنچ جائے گی کہ کہا یہی گیا تھا کہ چمگادڑوں ہی سے یہ وائرس پھیلا ہے۔ چلیے بہت تذکرہ ہو گیا نئی تحقیق کا۔ پتہ نہیں ٹڈیاں کھانے سے کورونا ٹھیک ہوتا ہے یا نہیں۔ فی الحال تو یہ ٹڈیاں ہماری اجناس کھا گئی ہیں اور انہوں نے کروڑوں بلکہ اربوں کے حساب سے انڈے دے دیئے ہیں اگر ہم سپرے وغیرہ نہیں کریں گے تو پھر ان انڈوں سے ٹڈیاں نکلیں گی اور سنبھالی نہیں جائیں گی۔ آخر میں محمد عباس مرزا کا ایک بیت: ناشکری دی حد مکائی اے عباس گنیاں اتے بہہ کے بوتل پیندی نیں