سپریم کورٹ نے محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کے ایک ملازم کی پنشن سے متعلق ا پیل مسترد کر دی۔ سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے آبزرویشن دی ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے قرض لے کر تنخواہیں اور پنشن ادا کرنا خطرناک ہے۔ کے پی میں سرکاری اداروں میں لوگوں کو ملازمتوں پر رکھ کر بھردیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ کومخاطب کرتے ہوئے کہا: کیا صوبے میں سرکاری اداروں کے علاوہ کوئی روزگار نہیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ کوئی صوبہ ان اداروں سے براہ راست قرض نہیں لے سکتا۔ وطن عزیز میںگذشتہ کئی ادوار سے یہ رسم جاری ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے تمام جماعتیں قرض نہ لینے کا دعویٰی کرتی ہیں لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا کام قرضے لینے کا کرتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں سرکاری اداروں کو ملازموں سے تو بھر دیا گیا ہے لیکن تنخواہوں اور پنشنوں کی ادائیگی عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے ’’قرض کی مے‘‘ نے اپنا رنگ تو لانا ہوتا ہے۔ قرض فرد پر ہو یا قوم پر ایک بوجھ ہے جس کا اتارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں بھرتیاں سوچ سمجھ کر اور میرٹ کے مطابق کی جائیں تو ایسی صورتحال سے بچا جا سکتا ہے۔، لہذا عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کی بجائے اپنے مالیاتی وسائل میں اضافہ کیا جائے اورمستقبل میں روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں تا کہ سرکاری اداروں پر مالی ادائیگیوں کا بوجھ کم کیا جا سکے۔