یہ آج نہیں ہو رہا۔ صدیوں سے ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ جس زمانے میں عرب پرتگال کی سرحد سے لے کر ماورا النہر تک چھائے ہوئے تھے جیسے پرزور گھٹا افق تا افق چھا جاتی ہے، اس زمانے سے محاورہ چلا آ رہا ہے من صنّف فقداستھدف۔ جو بھی نیا راستہ نکالے گا، طنزو تشنیع کے تیروں سے چھلنی کر دیا جائے گا۔ یہی بات اہل ایران نے کہی ؎ ازان کہ پیرویٗ خلق گمرہی آرد نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست اس راستے پر نہیں چلیں گے جس پر ہجوم چل رہا ہے اس لئے کہ اندھا دھند پیروی گمراہی کا پیش خیمہ ہے! آج عمران خان میدان میں کھڑا ہے۔ اس پر تیروں کی بارش ہو رہی ہے۔ ہرچہار طرف سے! زہر میں بجھے ہوئے تیر! غیروں کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے! کوئی کہہ رہا ہے غیر منتخب مشیر اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ گویا اسحاق ڈار، سرتاج عزیز رضا ربانی اور کئی اور، ون مین ون ووٹ سے آئے تھے! کوئی الزام لگا رہا ہے کہ فلاں پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر تھا۔ جیسے وہ پاکستانی نہیں؟ ایک طرف سے یہ شہنائی بجائی جا رہی ہے کہ پنجاب میں شہباز شریف کی بیورو کریت ٹیم واپس لے آئے ہیں۔ اس قبیل کے اعتراضات کا جواب ایک مزاحیہ شاعر نے خوب دیا تھا۔ جس زمانے میں یہ غلغلہ برپا ہوا تھا کہ ہم سن آف سائل (Son-of Soil) ہیں تو اس شاعر نے تنگ آکر، تنک کر پوچھا تھا سب Son-of Soils ہیں کوئی Son of his Father بھی ہے یا نہیں؟ کوئی شباز شریف کا ہے کوئی پیپلز پارٹی کاخدا کے بندو! کوئی پاکستان کا بھی ہے یا نہیں! کیا زرداری یا شہباز شریف کے ساتھ کام کرکے انسان ہمیشہ کیلئے نااہل ہو جاتا ہے؟ اگر واپس کوئی لایا بھی گیا ہے تو شہباز توقیرشاہوں، فوادوں اور احد چیموں کو تو نہیں لایا گیا۔ سرکاری ملازم ریاست کا ملازم ہوتا ہے اگروہ احد چیمہ، توقیر شاہ یا فواد حسن فواد نہ بن جائے تو اس نے ہر حکومت کے دوران ریاست کی خدمت کرنی ہے! وہ کسی کا ذاتی خدمت گار نہیں! اس ملک کے ساتھ ایک المیہ یہ ہوا کہ آل شریف کے طویل اقتدار نے لکھاریوں کی ایک ایسی ’’کہکشاں‘‘ پیدا کی جو اب تک ہمارے سروں پر چاندی جیسی روشنی بکھیر رہی ہے اور نہ جانے کب تک بکھیرتی رہے گی! ان لکھاریوں کی تین نمایاں خصوصیات ہیں۔ اوّل ان کے نزدیک کرپشن کوئی برائی نہیں! ان کی تحریروں کو محدب عدسہ لگا کر دیکھ لیجیے، کرپشن کا ذکر ہی نہیں! یہ برائی ان کے نزدیک برائی نہیں! یہ زرداروں اور شریفوں کا حق تھا جو انہوں نے استعمال کیا۔ حمزہ شہباز نے 2001 ء میں دو کروڑ بیس لاکھ روپے کے اثاثے ظاہر کیے۔ یہ اثاثے 2017 ء میں اکتالیس کروڑ سے بڑھ گئے۔ وراثت میں ایک فیکٹری ملی۔ پھر ایک سے گیارہ ہو گئیں۔ اکاؤنٹ میں 2005 ء سے 2008ء تک اٹھارہ کروڑ روپے دساور سے منتقل ہوئے، اپنی فیکٹری کو فائدہ پہنچانے کیلئے نالہ تعمیر کرایا۔ قومی خزانے سے اس پر بیس کروڑ سے زاید رقم ادا کی گئی۔ لیکن یہ سب کچھ ہمارے ان لکھاریوں کیلئے نارمل ہے! اس کا ذکر ہے نہ افسوس! عمران خان کی آنکھ کا بال تو دکھائی دیتا ہے دوسروں کی آنکھوں میں شہتیر بھی نظر نہیں آتے۔ جمہوریت کے یہ مجاہد اس وقت نہ جانے کیا پی کر سو رہے تھے جب دختر نیک اختر عملاً بادشاہی کر رہی تھیں۔ جب وہ سرخ قالین پر چلتی تھیں اور منتخب سپیکر، اس غلامانہ انداز سے ساتھ چلتا تھا کہ قالین پر پاؤں نہ پڑے کہ کہیں شہزادی کے جاہ و جلال پر آنچ نہ آ جائے! ان خاندانوں کے شاہانہ اخراجات جو بیت المال سے پورے کیے جاتے تھے ان بزرجمہروں کو کبھی نہیں چبھے۔ دوم۔ یہ لکھاری ہر حال میں کرپٹ ٹولے کی واپسی کے خواہاں ہیں، اس لئے کہ ان کے بقول انہوں نے ڈیلیور کیا ہے۔ یہ وہی غلامانہ ذہنیت ہے کہ بادشاہ آخر مخالفین کو قتل کراتے ہی ہیں۔ یہ وہی پست انداز فکر ہے کہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں! ہر چوتھے دن پھوہڑی ڈال کر یہ دانشور بیچ چوک کے بیٹھ جاتے ہیں کہ احد چیمہ کو واپس لاؤ۔ فواد کے بغیر دنیا تاریک ہے۔ شہباز شریف کا ہمسر کوئی ہے نہ ہو گا! کوئی ان سے پوچھے کہ فائدے تو قدرت نے بچھو اور سانپ میں بھی رکھے ہیں پھر انہیں بھی پالتو جانوروں کی طرح گھروں میں پالنا شروع کر دو۔ پھر انگریزوں کو بلا کر برطانوی راج کو بھی ازسرنو زندہ کرو کہ فائدے تو برٹش استعمار کے بھی بہت تھے۔ آخر انہوں نے ریلوے تعمیر کی لوکل گورنمنٹ سسٹم دیا۔ آڈٹ اور اکاؤنٹس کا ایک نظام دیا۔ امن و امان کے دور میں مجموعی طور پر مثالی تھا۔ حالانکہ یہ سارے فوائد ضمنی تھے۔ یعنیBy Default. ، ہندوستانیوں کے مفاد کیلئے انہوںنے اپنے ارادے سے By Design کچھ نہیں کیا۔ یہاں بھی کرپٹ ٹولے سے اگر کوئی تعمیری کام ہوا تو وہ ضمنی تھا، اصل مقصود اور مطلوب وہ کمائی تھی جو کی گئی۔ یہ حضرات کبھی بھولے سے بھی اس طرف نہیں آتے کہ یہ سب کھرب پتی کیسے ہو گئے۔ کیا فواد اور احد چیمہ کے ساتھ کے سرکاری ملازم (Batch Mate) بھی اتنی ہی جائدادوں گاڑیوں، پلازوں اور بنک بیلنس کے مالک ہیں؟ آخر مریم گیلانی بھی احد چیمہ ہی کی بیچ میٹ ہے۔ دھان پان سی لڑکی وقت کے وزیر ریلوے کے سامنے ڈٹ گئی کہ ملازمتیں میرٹ پر دینی ہیں۔ کوئی سفارش نہیں مانوں گی۔ معطل کر دی گئی برطرفی کا آرا چلا۔ ڈٹی رہی۔ اعلیٰ عدالتوں میں اپنا مقدمہ خود لڑی۔ باعزت بحال ہوئی۔ تاریخ رقم کردی۔ وزیر صاحب وضعدار تھے۔ اس سب کچھ کے بعد اس کے گھر تشریف لائے۔ کتنے اثاثے ہیں مریم گیلانی کے؟ رانا شکیل اصغر جو آج پاکستان ریلوے کے حسابات کا مدارالمہام ہے اور مشیر مالیات، اسی احد چیمہ کا بیچ میٹ ہے۔ اس کے اثاثے کتنے ہیں؟ کیا اتنے ہی جتنے چیمہ صاحب کے اور فواد صاحب کے ہیں؟ چنیوٹ میں آبائی جائداد فروخت کرکے شکیل نے گاڑی خریدی! یہ سب اور اس جیسے بے لوث بیوروکریٹ لکھاریوں کی اس ’’کہکشاں‘‘ کو کبھی نظر نہیں آتے، ان کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے۔ سومْ یہ عمران خان کی ہر پالیسی، ہر اقدام۔ ہر ایکشن پر معترض ہیں۔ گویا کہ آٹا گوندھتے وقت ہل کیوں رہی ہو؟ ایک ایسا شخص جس کا اپنا کوئی مفاد وابستہ نہیں، وہ اس قوم کو راس نہیں آ رہا! وہ جو پوری دنیا میں اپنے اثاثے تعمیر کر رہے تھے، وہ یاد آ رہے ہیں۔ اسحاق ڈار اینڈ کمپنی نے معیشت کو وینٹی لیٹر پر رکھا ہوا تھا۔ مصنوعی تنفس پر تندرستی کا گمان ہو رہا تھا۔ نئی حکومت نے آ کر وینٹی لیٹر ہٹایا۔ قرضوں کی صورحال معلوم ہوئی۔ عیاش نوابوں کے زمانے میں نواب مرتا تھا تو جانشین کو ساہوکار آ کر بتاتے تھے کہ اتنا قرضہ ہے تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی تھیں۔ کتنی رقم واگذار کرا کر خزانے میں جمع کی گئی، اس کی کوئی نہیں بات کر رہا۔ قسطیں کس طرح ادا کی جا رہی ہیں، کسی کو پروا نہیں! آج اگر لوٹ مار کرنے والے پلٹ آئیں، لکھاریوں کی مراعات بحال ہو جائیں، ہیلی کاپٹروں پر حکمرانوں کی معیت نصیب ہو جائے۔ غیرملکی دوروں پر مصاحبت مل جائے تو سب اچھا ہو جائے گا۔ پہلے زمانے میں کچھ لوگ دسترخوان حضرت امیر معاویہؓ کا پسند کرتے تھے اور نماز امیر المومنین علی المرتضیٰؓ کے پیچھے پڑھتے تھے مگر خدا کی پناہ! آج کے زمانے میں جہاں دستر خوان ہے، نمازیں بھی وہیں پڑھی جا رہی ہیں۔ کابینہ میں تبدیلیاں کی گئیں! کسی احساس کمتری کے بغیر ۔ کسی خوف لومتہ لائم کے بغیر۔ کیا اس سے پہلے بھی کسی حکمران نے یہ جرأت کی کہ ذاتی تعلقات کو خاطر میں لائے بغیر قلم دان واپس لے لئے؟؟عمران خان فرشتہ ہے نہ ساحر! مگر چار دہائیوں کا مقابلہ چند مہینوں کے ساتھ؟ اے مری قوم ترے حسن کمالات کی خیر تونے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا !!