کبھی آپ نے غور کیا کہ وہ عمر جو بظاہر آہستہ رو ہے اور بعض اوقات صرف کھسکتی اور سرکتی محسوس ہوتی ہے ،ہر کچھ عرصے کے بعد مڑ کر دیکھنے پر اپنی سبک روی سے حیران کردیتی ہے۔جیسے آپ کسی کشتی پر بہاؤ کے ساتھ بہے چلے جارہے ہوں۔آبِ رواں آپ کے ساتھ ایک مسافر کی طرح چل رہا ہو اور اچانک آپ مڑ کر دیکھیں تو حیران رہ جائیں کہ وہ سرسبز ٹیلا،وہ گھنا سایہ دار پیڑ،وہ خوشبو بھری جھاڑی،وہ ریتیلا ساحل اور وہ ڈھلوان کنارہ دور دور کہیں نظر نہیں آرہے جن کے ساتھ آپ نے سفر آغاز کیا تھا۔کچھ نئے راستے، کچھ اجنبی درخت اب آپ کے گرد و پیش میں موجود ہیں لیکن وہ پرانے،جانچے پرکھے ساتھی ہیولوں اور سایوں سے زیادہ موجودگی نہیں رکھتے۔ہر کچھ مدت بعد ایسا ہی ہوتا ہے اور ہر ایک کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔سوچوں تو یہ سوچ دل پر خراش ڈال کر گزرتی ہے کہ احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، پروین شاکر، ثمینہ راجہ، اشفاق احمد، شہزاد احمدوغیرہ اب ماضی قریب کی یادوں کا حصہ ہیں۔ اس وقت2019میں ان کو بچھڑے ہوئے کسی کو دس سال کسی کو کچھ زیادہ کسی کو کچھ کم ہورہے ہیں۔ایک عشرہ بہت ہوتا ہے۔ ماضی قریب بھی آخر کب تک قریب رہتا ہے ، اسے بھی وقت کے بہاؤ کے ساتھ دور جانا ہی ہوتا ہے۔ وہ لوگ تہ ِخاک جا چھپے جن کے بارے میں عزیز حامد مدنی نے کہا تھا وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے کیسے لوگ تھے۔فنی کمال، خوبیوں، خامیوں ،کمزوریوں سمیت ایک عہد کے ترجمان ۔ سوچا نہیں جاسکتا تھا کہ ان کے بغیر کبھی محفلیں سج سکیں گی۔ اس بار اسلام آباد جانا ہوا تو ہنس مکھ اور دل دار شاعر حسن عباس رضا نے اپنی یادداشتوں کی کتاب ’ ’ میرے مہرباں مرے چارہ گر ‘ ‘ عنایت کی۔حسن عباس پیارا شاعر ہے اور محبت کرنے والا دوست۔محفلوں مشاعروں میں بھی اس سے بہت سی ملاقاتیں ہیں۔لیکن کتاب میں ملاقات کا الگ رنگ ہے۔ کئی ادبی مشاہیر سے قریبی دوستی اور ربط ضبط جس طرح حسن کو میسر آیا ہے وہ بھی کم کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ان میں قریبی دوستی کی وجہ سے احمد فراز کا نام سب سے اہم ہے اور میرے خیال میں اس کتاب کا مرکزی مضمون بھی وہی ہے۔ان دوستیوں میں حسن عباس رضا کی سخن وری کا بھی دخل ہے اور دوست داری کا بھی۔ہم نوالہ بننے کا بھی اور ہم پیالہ ہونے کا بھی۔یہ چار عناصر اکٹھے ہوئے اور بھرپور صحبتوں والا ایک رنگا رنگ عہد گزارتے چلے گئے۔حسن عباس رضا کی بزم خیال ان سب لوگوں کی یاد سے سجی ہوئی ہے ۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ حسن عباس نے زندگی اتنی نہیں گزاری جتنی جوانی گزاری ہے۔یہ بھی امکان ہے کہ وہ پیدا ہی جوان ہوا ہو لیکن یہ تو یقینی بات ہے کہ وہ بڑھاپے میں بھی عین عالم شباب میں زندہ رہے گا۔اللہ اسے لمبی زندگی دے ۔فیض صاحب،احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، ملکہ ترنم نورجہاں، گلزار ،کشور ناہید امرتا پریتم، احمد داؤد وغیرہ کے ساتھ حسن عباس رضا کا جو وقت گزرا ہے اور ڈھیر سارے ناگفتنی واقعات میں سے جو گفتنی ٹکڑے بیان کیے جاسکتے تھے وہ اس نے مزے سے بیان کردئیے ہیں۔جن لوگوں کا کچھ وقت ان نامور لوگوں کے ساتھ گزرا ہے یا جو ان کی شخصیات سے دل چسپی رکھتے ہیں ان کے لیے ان میں سے کئی واقعات نئے اور پر لطف ہوں گے۔میرے لیے بھی کئی باتیں نئی ہیں۔سب قصے تو کہاں سنائے جاسکتے ہیں ۔لیکن دو تین ملاحظہ کر لیجیے ’ ’ پہلے خط میں انہوں نے یہ مصرعہ کچھ اس طرح لکھا تھا ’ ’ تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے وطن عزیز ‘ ‘ مجھے حیرت ہوئی کہ فیض صاحب نے لفظ ’ ’ وطن ‘ ‘ کو عروض و وزن کے اعتبار سے غلط باندھا ہے۔میں سوچ رہا تھا کہ فیض صاحب کو خط لکھ کر اس غلطی کی نشان دہی کروں مگر اسی دوران میں ان کا ایک اور خط آیا جس میں انہوں نے اس کی تصحیح کردی تھی یعنی تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن ‘ ‘ ’ ’ فراز صاحب مجھے پیار سے حسن کوزہ گر اور بعض اوقات صرف کوزہ گر کے نام سے پکارتے تھے۔ ایک دن کراچی کمپنی کے علاقے میں ایک دعوت پر ہمیں جانا تھا۔۔ میں اس شام بھی راستہ بھول گیا اور غلط راستے پر گھومتا رہا.۔اس موقع پر فراز صاحب نے کمال کا ایک جملہ میرے بارے میں کہا کوزہ گر تم ہر قسم کی بے راہ روی کا شکار ہو۔ ‘ ‘ ’ ’ ایک بار ہم مری کے مشاعرے میں گئے۔وہاں دیگر شعراء کے علاوہ بسمل صابری بھی تھیں۔مشاعرے کے دوسرے روز ناشتے پر فراز صاحب نے مصرعہ پڑھا آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل صابری اور محفل زعفرانی ہوگئی۔ ‘ ‘ ’ ’ ہندوستان کے سفر میں راستے میں ہم لوگ پانی پت پر چائے پینے کے لیے رکے۔اسی دوران ہوٹل کے سامنے شور و غل مچا۔ہم نے دیکھا کہ دو ٹرکوں میں تصادم ہوا اور ڈرائیور اور ان کے ساتھ ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہورہے تھے۔فراز صاحب مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے۔حسن تم نے صرف کتابوں میںپانی پت کی لڑائیوں کے بارے میںصرف پڑھا ہے ۔اب تم پانی پت کی تازہ لڑائی دیکھ لو ۔ تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے پانی پت کی جنگ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ۔ ‘ ‘ کتاب میں حسین بن منصور حلاج پر بھی ایک مضمون شامل ہے جن کی تاریخی ،افسانوی شخصیت سے مصنف کی عقیدت ہے۔مضمون اچھا ہے لیکن اگر حسن میری گستاخی معاف کریں تومیرے خیال میں ان احباب کے درمیان جن سے مصنف کی صحبتیں رہی ہیں ، یہ مضمون میل نہیں کھاتا۔حسن عمدہ اور رواںنثر لکھتے ہیں اوریہ کسی اگلی کتاب میں جگہ پاسکتا ہے ۔ پروین شاکر اور ثمینہ راجہ دونوں افق پار جاچکیں۔کتاب میں دونوں کی چپقلش اور تناؤ کا بھی ذکر ہے جو کم از کم میرے لیے نئی بات ہے۔ممکن ہے پروین شاکر اور منصورہ احمد کے درمیان کشید گی حسن کے علم میں نہ آئی ہو، لیکن میںاس کا گواہ ہوں اور اس بات کا بھی کہ پروین شاکر کے آخری دور میں احمد ندیم قاسمی کو ان سے بہت بدظن کردیا گیا تھا۔کئی واقعات بھی مجھے یاد ہیں اور ندیم صاحب کا اپنا مؤقف بھی جو میرے استفسار پر انہوں نے ذکر کیا تھا۔ممکن ہے کبھی ندیم صاحب کے ذکر میں یہ باتیں میں ذکر کرسکوں کہ اب خوف ِفساد ِخلق کا اندیشہ کم کم ہے ۔یاد داشتوں میں یہ خوفِ فسادِ خلق کا مسئلہ بڑا سخت ہے۔کتنی ہی ٹھیک باتیں ریکارڈ پر آنے سے رہ جاتی ہیں۔کتنی ہی مغالطے راہ پاجاتے ہیں۔بہت سے چہرے صرف یک رخے رہ جاتے ہیں۔تذکرے دیکھو تو ایسا لگتا ہے کہ دوسرا رخ تھا ہی نہیں ۔دل کی بات نہ کرو تو انسان اندر سے سنگسار ہوتا رہتا ہے۔دل کی بات کرو تو باہر سے پتھر پڑتے ہیں۔اسی لیے یادداشتیں تحریر کرناجہاں ایک طرف بہت للچانے والا کام ہے ،وہیں دوسری طرف بہت کٹھن کوہ پیمائی ۔ پروین شاکر نے کہا تھا نا کیسے کیسے چہرے نظر میں گھوم رہے ہیں میں نے ’ ’ مرے مہرباں، میرے چارہ گر ‘ ‘ ختم کی تو کتنے ہی چہرے نظر میں گھومنے لگے۔کہتے ہیں انسان اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے تو دراصل اپنے آپ کو یاد کرتا ہے۔حسن عباس رضا نے بھی اپنے دوستوں کو اور خود کو یاد کیا ہے لیکن کیسی خوب صورتی سے۔اس انداز میں کہ ایک دور تازہ ہوگیا ہے۔تر و تازہ رہو حسن کہ تم نے ہمیں تر و تازہ کردیا ہے۔