برصغیر میں اشاعت دین اور تبلیغ اسلام کا سہرا صوفیا کے سر ہے،جنکی مساعی جمیلہ سے کفر و ضلالت کے اندھیرے چھَٹ گئے اور نیکی،تقویٰ و طہار ت اور ایثار و بھائی چارے کی شمع فروزاں ہوئی۔سرز مین پاک و ہند اور بالخصوص خطۂ پنجاب کو ہدایت کی روشنی اور تابند گی عطا کرنیوالی ہستی،الشیخ السید علی بن عثمان الہجویری ؒ المعروف حضرت داتا گنج بخش ہیں،جنکا آستاں گزشتہ ایک ہزار سال سے مرجع خلائق ہے،مگر اس آستاں کے فیوض و برکات کو برصغیر کے شرق و غرب میں روشناس کرانے، اور اس سرز مین پر ایک مربوط اور مستحکم خانقاہی نظام کی بنأ ڈالنے والی ہستی حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ ہیں،جنکے وجود سعید کے سبب،برصغیر میں سلاسلِ طریقت کی باقاعدہ آمد کا سلسلہ شروع ہوا،اور یوں آپؒ کے دم قدم سے سلسلہ چشتیہ کو اولیت میسر آئی۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ خطۂ ہند میں سلسلہ ٔ چشتیہ کے بانی اور بر صغیر کے سب سے بڑے سماجی انقلاب کے امین اور علمبردار بنے۔آپؒ کا طرزِزیست اور اسلوبِ حیات ازحد سادہ ۔۔۔ لیکن نظر کی تاثیر ایسی کہ جس طر ف دیکھ لیتے مَعصیت کے سَوت خشک ہوجاتے اور دین ِاسلام کی محبت آمیز تعلیمات غالب آجاتیں۔ ایک معروف روایت کے مطابق’’خانقاہ‘‘کا لفظ’’خوان گاہ‘‘ کامُعَرَّبْ(Arabicized) یعنی وہ لفظ جسے عربی بنا لیا گیا ہو،ہے۔ جس کے معنی کھانے کی جگہ کے ہیں۔یعنی دین کی طلب اور ہدایت کی جستجومیں اَپنا گھر بار چھوڑ دینے والے لوگ،جنکا کوئی مسکن و ماویٰ نہ ہو،انکے قیام کی جگہ خانقاہ کہلائی،جہاں ایک شیخِ طریقت کی سرپرستی اور راہنمائی ان سالکین کو ہمہ وقت میسر رہتی،برصغیرمیں اوائل دورکے ان صوفیأکی تبلیغی و روحانی سرگرمیوں کا مرکز انکی خانقاہیں تھیں،اس سلسلے میں جو خانقاہیں یا جماعت خانے تعمیر و تشکیل ہوئے،انکا دائرۂ فکر و عمل از حد مختلف اور معتبر تھا،انکا بنیادی مقصد کسی فرد کے اندر نیکی کے داعیٔے اور جذبے کو مضبوط اور مستحکم کرنا اور اُ سے ایک ایسی شخصیت میں ڈھالنا،جو سوسائٹی کے لیے مفید اور فیض رساں ہو،’’انسان سازی‘‘کائنات کا سب سے اہم اور مشکل کام ہے اور یہ فریضہ صوفیاء کی ان خانقاہوں نے جس حُسن و خوبی کیساتھ سرانجام دیا،دنیا کے دیگر مذاہب، معاشرے اور تہذیبی مراکز اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے۔ ’’خانقاہیں‘‘ایسی غیر سرکاری تربیت گاہیں تھیں،جہاں روحانی و دینی علم کے علاوہ انسان کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بہرہ مند کیا جاتا،شریعت اور طریقت کے ساتھ ساتھ انسان دوستی اور محبت آفرینی کے گراں بہااصولوں سے شناسائی اور شناوری کا داعیہ اور جذبہ پیدا کیا جاتا۔ صوفیاء کی مساعی جمیلہ کو منضبط،مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے برصغیر میں ایک مرکزی خانقاہی نظام کی بنیاد پڑی،جسکے لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے از خود اجمیر میں قیام فرماتے ہوئے،اپنے جانشین اور اپنے بعد سلسلے کے امین اور اس خانقاہی نظام کے نقیب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کو دہلی میں متمکن کیا،اس لیے کہ آنیوالے ایّام میں دہلی کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور عسکری اہمیت سے اِعراض ممکن نہ تھا،یوں سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خلیفہ اور جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ بنے،حالانکہ حضرت خواجہ کے تین صاحبزادے تھے،جن میں شیخ فخر الدین جو سب سے زیادہ معروف ہوئے،اجمیر کے نواح میں باقاعدہ کھیتی باڑی کر کے گزر اوقات کرتے تھے۔سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی نے جانشینی اور سجادگی کیلیے جس اہلیت اور میرٹ کو بنیاد بنایا،اسی کی بنیاد پر خواجہ قطب اس ذمہ داری سے سرفراز ہوئے۔خواجہ قطب الدینؒ کے خلیفہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒہیں،جنکی کثرتِ عبادات، ریاضت ومجاہدات سے متاثر ہو کر،حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ہمراہ فیض یاب کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ فرید الدین ہمارا وہ چراغ ہے جو ہمارے سلسلے کی روشنی کو زمین و آسمان تک پہنچا دے گا۔ یقینا یہ ارشاد بابا فریدؒ کیلیے سندِ اعزاز تھا،جسکی صداقت ہر دور میں تسلیم کی جاتی رہی۔بیعت کا یہ بندھن اس قدر مستحکم ہوا کہ حضرت خواجہ قطب کے وصال کے وقت آپ کے یہ مریدِ صادق اور خلیفہ ہانسی میں تھے۔آپؒ سے سوال ہوا کہ آپؒ کے بعد آپؒ کی جانشینی کا شرف کسے میسر ہوگا، فرمایا:’’میرا خرقہ، دستار،مصلی،چوبی جوتے اور میرا عصا فرید الدین تک پہنچا دینا، وہی میرا جانشین اور خلیفہ ہوگا‘‘۔حضرت بابا فریدؒ کا فیض کئی روشن صورتوں میں آشکارا ہوا،لیکن جنکی ذات میں یہ فیوض نقطۂ کمال کو پہنچے وہ آپکے خلیفہ اور جانشین حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ تھے،جنہیں آپؒ نے ۶۵۱ھ میں خلافت سے سرفراز فرماتے ہوئے’’نظام الدین‘‘کا لقب عطا کیا۔آپؒ اگرچہ اپنے شیخ حضرت بابا فریدؒ کی وفات کے وقت،آپکے پاس موجود نہ تھے،مگر بابا جیؒ نے اپنا جامہ،مصلیٰ،عصا اور دیگر تبرکات اُن کو دیئے جانے کی وصیت فرمائی،یہ گویا بابا صاحب کی جانشینی اور خواجہ صاحب کے خصوصی مقام کی طرف اشارہ تھا۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ ایک عرصہ ریاضت واطاعت کی زندگی گزار چکے تو بیمار رہنے لگے،احباب کو بلایا،ہدایات سے نوازا اور برصغیر کے مختلف علاقوں کی طرف روانہ کیا۔’’وصال کے روز نماز عصر کے بعد حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی کو بلایا،خرقہ، عصا، مصلیٰ، تسبیح ،لکڑی کا پیالہ اور جو کچھ حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر ؒ سے انکو ملا تھا ،سب شیخ نصیر الدین محمود کو عطا فرما دیا اور کہا’’تم کو شہر دہلی میں رہنا چاہیے اور لوگوں کے ظلم وجور برداشت کرنے چاہیں‘‘۔ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی اپنے تبحر علمی کے سبب ’’ابوحنیفہ ثانی‘‘ کے لقب سے معروف ہوئے،بوقت وصال فرمایا:’’جب مجھے قبر میں رکھا جائے تو حضرت پیر و مرشد کا عطا کردہ خرقہ اور عصا میرے سینہ پر رکھ دینا،لکڑی کا پیالہ اینٹ کے بجائے میرے سر کے نیچے رکھ دینا،تسبیح میرے ہاتھ میں ڈال دینا اور جوتے قبر میں میرے قریب رکھ دینا‘‘۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ حضرت چراغ دہلوی نے بظاہر کسی کو جانشین نامزد نہ کیا،لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا ان لوگوں کو کہہ دو اپنے ہی ایمان کی فکر کریں،دوسروں کا بوجھ سر پر لینے سے کیا حاصل۔ اشاعت اسلام،تبلیغِ دین اور تصوف و روحانیت کا یہ اولین عہد۔۔۔ جو تاریخ ہند میں ایک زریں دور سے تعبیر کیا جاتا ہے، حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی کے وصال کیساتھ اختتام کو پہنچا، خانقاہ اپنے مرکزی نظام کی بجائے انفرادی سسٹم میں ڈھل گئی، تآنکہ خواجہ کلیم اللہ جہاں آبادی،جن سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بزرگوں نے بھی استفادہ کیا،نے اسکو دوبارہ عروج بخشا۔ آپ سے یہ سلسلہ شیخ نظام الدین اورنگ آبادی سے ہوتا ہوا انکے بیٹے خواجہ فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی تک پہنچا۔( حضرت خواجہ فخر الدین سے ولی اللہی خاندان بھی ازحد عقیدت رکھتا تھا۔ یہاں تک حضرت شاہ ولی اللہ کے وصال کے بعد انکے بیٹے شاہ عبدالعزیز کی دستاربندی حضرت فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی نے فرمائی)۔ حضرت فخر الدین فخرِ جہاں دہلوی کے بعد آپکے سلسلے کی شہرت اور وسعت آپکے خلیفہ خاص حضرت خواجہ نور محمد مہاروی کے ذریعہ عمل میں آئی اور اس طرح اس فیضان نے خطۂ پنجاب کو سیراب کیا۔خواجہ نور محمد مہاروی سے خواجہ شاہ سلمان تونسوی اور وہاں سے خواجہ شمس الدین سیالوی اور پھرفیض کا یہ سلسلہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی تک پہنچا۔برصغیر کی اس ایک ہزار سالہ تاریخِ تصوّف میں خلافت،نیابت،سجادگی اور جانشینی کی تقرری اس قدر میرٹ،اہلیت اور شفافیت کی علمبردار ہے کہ اس پر آج تک کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکا اور یہی وجہ ہے کہ ان خلفاء اور جانشینوں نے اپنے شیخ اور مرشد کے مشن کو جس انداز میں آگے بڑھایا وہ ہماری تاریخ کا زرّیں اور روشن باب ہے ۔