پہلا واقعہ: ناہید بی بی ، ارشاد بی بی ، عائشہ بی بی ، جویریہ بی بی اور مریم بی بی کا تعلق بنوں سے تھا اور یہ پانچوں سباوون نامی ایک غیر سرکاری ادارے کے ساتھ سولہ ہزارروپے کی معمولی تنخواہ پر کام کرتی تھیں۔ بائیس فروری کی صبح یہ خواتیںمعمول کی طرح اپنے گھروں سے نکل کرایک گاڑی میں سوارہوگئیںاور میرعلی (شمالی وزیرستان) میں واقع اس ادارے کے دفتر کی طرف روانہ ہوئیں۔ ایپی گاوں (میرعلی) کے علاقے میں جب ان کی گاڑی پہنچی تو مسلح موٹرسائیکل سوار وںنے ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ، مریم بی بی پھربھی خوش قسمت تھی کہ ایک قریبی گھر میں پناہ مل گئی جبکہ ناہید بی بی ، ارشاد بی بی ، عائشہ بی بی اور جویریہ بی بی چاروں کو ظالموں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ ارشاد بی بی اور عائشہ بی بی آپس میں سگی بہنیں تھیں اور کہا جاتاہے کہ ارشاد بی بی نے اپنے پیچھے پانچ مہینے کی ایک شیرخوار بیٹی بھی چھوڑی۔ دوسرا واقعہ: سعدیہ سادات ، شہناز رووفی اور مُرسل وحیدی جلال آباد سے تعلق رکھتی تھیں ، یہ تینوں خواتیں صحافی تھیں اور جلال آباد میں انعکاس نامی ایک ٹی وی چینل کے ساتھ کام کرتی تھیں۔ تین دن قبل یہ صحافی خواتیں شام کوٹی وی دفتر کی طرف روانہ ہوئیںلیکن پھر گھر لوٹ نہ آسکیں ، کیونکہ راستے میں کسی نے ان تینوں کو موت کی نیند سلا کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کردیا۔ ان المناک حادثاث نے میرے دل پر بجلیاں گرادیں اور میں بطور انسان قاتلو ں کے اس وحشی اور انسانیت سوز عمل پر شرمندہ ہوں۔سوال یہ ہے کہ یہ قاتل کون تھے اور کہاں سے آئے تھے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ قاتل ہمارے سماج کا حصہ ہیں جہاں پانچ وقت مسجدوں سے اللہ اکبر کی صدائیں گونجتی ہیں، پانچ وقت انہی مساجد میں باجماعت نمازیں ادا کی جاتی ہیں ، رمضان کے مہینے میں روزے رکھے جاتے ہیں، عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے بکرے اور بیل قربان جاتے ہیں۔دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر اس بربریت کی وجہ کیاہے کہ کلمہ طیبہ پڑھنے اور خود کو مسلمان کہلوانے کے باوجود یہ لوگ اس نوعیت کے جرم عظیم کاارتکاب کیوںکرتے ہیں؟ اس کیوں کا ایک بنیادی جواب یہ ہے کہ اس سماج میں اگر دین اسلام کو صحیح سمجھایا جاتا تو میرا نہیں خیال کہ عورتوں کے ساتھ روز ایسی بھیانک واردتیں رونما ہوتیں۔ یہاں ہر اس شخص کے پاس فتویٰ ہوتاہے جس میں برداشت کی کمی اور جنونیت زیادہ ہوتی ہے ۔دوسری طرف اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست کی سرکار ایسے عناصر کو قابو کرنے کے بجائے الٹا موقع دے رہی ہے جو استحصال ِ زن پر تلے ہوئے ہیں۔دین اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہوا ہے ، اتنے قابل رشک اور رعایتی مقام کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی ۔یہاں تک کہ اگر ایک مرد مسلمان مرتد ہوکر اسلام سے پھیر جائے تو اسے تین دن کی مہلت تو دی جائے گی اور اس پر نئے سرے سے اسلام پیش کیاجائے گا ۔اگر اس کے باوجود مردِ مرتدرجوع نہ کرے تو اسے قتل کیاجائے گا لیکن جب اس صورت میں ایک مرتد عو رت کی باری آتی ہے تو اسلام کا یہ حکم تبدیل ہوجاتاہے۔ عورت کو ارتداد کی صورت میں قتل نہیں کیاجائے گا بلکہ اس کو زیادہ سے زیادہ قید کی سزا دی جائے گی یہاں تک کہ وہ دوبارہ اسلام کی طرف رجوع کرلے۔ رسالت مآب ﷺ نے اپنے وصال سے قبل عرفات کے میدان میںنو ذی الحجہ 632 کو عرفات کے میدان میںایک تاریخی اور شاہکارترین خطبہ دیا تھا ۔یہ ان کی زندگی کا آخری خطبہ تھا کیونکہ اس کے بعد آپ ﷺ کی زندگی میں دوبارہ ایسا موقع نہیں آیا۔اس خطبے کا ہم اگر جائزہ لیں تو آپ ﷺ نے اس میں امت کو جو باتیں بتائی ان کازیادہ تعلق حقوق العباد سے ہے ۔ مثال کے طور پر عرفات کے میدان میں قصویٰ پر تشریف فرما پیامبرﷺ نے فرمایا کہ جاہلیت کے تمام دساتیر ختم ہوگئے ، کسی عربی کو عجمی اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فوقیت حاصل ہے مگر فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہی ہے۔تمہارے خون ، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن اس شہر اور اس مہینے کی حرمت۔ تم دیکھتے ہو۔ خبردار! میرے بعد گمراہی میں نہ پڑناکہ پھر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔اگر کسی کے پاس امانت ہوتو وہ اسے اپنے مالک کو لوٹادے اور اگر سود ہوتو وہ آج کے بعد ختم کردیا جاتاہے اور میں سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کردیتاہوں۔اس خطبے میں وراثت ، غلاموں اور یتیموں کے حقوق اور دیگر انسانی حقوق کے علاوہ آپﷺ نے عورتوںکے حقوق کے بارے میں نہایت تاکید کے ساتھ فرمایا لوگو! اپنی بیویوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو ــ‘‘وغیرہ۔ اس تاکید کی وجہ یہ تھی کہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے مرد کے مقابلے میں جسمانی ساخت میں کمزورپیدا کیا ہے یوں ایک جاہل معاشرے میں اس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا آسان ہوتاہے ۔دوسرے الفاظ میںیہ صنف نازک ہے اور اسلام اس سے رعایت برتنے پر زور دیتاہے۔ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہمارے اسلامی معاشرے میں اس ذات کی توہین اور حق تلفی آج اپنی عروج پر پہنچ چکی ہے ۔میراث کی بات آجائے تو اس بے چاری کو یکسر طور پر محروم کر دیا جاتا ہے۔ مرضی کی شادی کے راستے اس کے اوپر بند کردیے گئے ہیں، اس سے رائے لینا عار سمجھا جاتاہے ۔اور اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اس دین متین کے نام پر اس کو قتل کردیا جاتاہے جس دین نے انہیں مرتد جیسے ظلم عظیم کے بعد بھی زندہ رہنے کا حق دیاہے ۔کیا ہماری ریاست اور ہم رعیت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ عورتوں کوحیات رہنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں ؟ہمیں اس دن سے ڈرنا چاہیے جب یہ سوال کیا جائے گا کہ ’’ بای ذنبِِ قُتِلت؟ ۔