وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا یہ پہلا دورہ کابل ہے ۔اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ سعودی عرب میں مئی 2019 ء میں او آئی سی اجلاس کے دوران ملاقات کر چکے ہیں ،جبکہ اس ملاقات کے بعد صدر ڈاکٹر اشرف غنی جون 2019ء میں اسلام آباد کا دو روزہ دورہ بھی کر چکے ہیں جس میںاانہوں نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اوروزیر اعظم عمران خان سے ملاقاتیں کی تھیں۔وزیر اعظم عمران خان کا حا لیہ دورہ اہم اس لئے ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کئی معاملات پر پیش رفت کی تو قع تھی ،لیکن چند روز قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر وہی پرانا الزام دہرایا کہ بھارت ، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔ اگر چہ افغانستان نے حسب معمول اس الزام کو مسترد کر دیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ افغانستان کی سرزمین بھارت ،پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحا میں افغانستان حکومت کی نمائندہ وفد اور طالبان کے درمیان گزشتہ دو مہینوں سے بین الافغان مذاکرات کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے پر مشاورت جاری ہے لیکن تا حال کو ئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔امکان ابھی کم ہی ہے اس لئے کہ فریقین کو نئی امریکی انتظامیہ کا انتظار ہے ۔اس غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے افغانستان میں تشدد اور دہشت گر دی کے واقعات میں اضافہ ہو ا ہے جس نے سب کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس چھوڑنے سے قبل افغانستان سے فوجی انخلاء چاہتے ہیں ۔ اس فیصلے پر ان کے اتحادی نیٹو ان سے ناراض ہیں ۔ان کا موقف ہے کہ فوری انخلاء سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اس لئے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلاء ایک نظام الاوقات کے مطابق ہو نا چاہئے ۔ افغانستان کی حکومت ، کابل میں موجود زیادہ سفارت کاروں اور پاکستان کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ فوری انخلاء کی بجائے افواج کا انخلاء مرحلہ وار ہونا چاہئے ۔ ٹرمپ کے اس فیصلے کے صرف طالبان حامی ہیں جبکہ حکمت یار کا موقف بھی فوری انخلاء کا ہے ۔ پاکستان کو افغانستان سے کئی شکایات بھی ہیں ۔اسلام آباد کو شکوہٰ ہے کہ کابل کی سرزمین نئی دلی اس کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔اسلام آباد کو کابل سے یہ بھی شکایت ہے کہ انھوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھی ہے ۔بلوچ علیحدگی پسندوں کے بارے میں بھی اسلام آباد کا الزام کابل پر ہے ۔ پاکستان کا موقف ہے کہ ان دونوں تنظیموں کو دلی اور کابل کی معاونت حا صل ہے ۔ وہ ان دونوں کو مالی معاونت اور اسلحہ فراہم کرکے ان کو پاکستان میں دہشت گردی میں استعمال کر رہے ہیں ۔پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم ) کے بارے میں بھی پاکستان کا موقف ہے کہ ان کو بھی بھارت اور افغانستان کی حمایت حاصل ہے ۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود گزشتہ چند مہینوں سے اسلام آباد اور کابل میں قربتیں بڑھ رہی ہیں ۔رواں بر س ستمبر میں افغانستان کے اعلی مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ اسلام آباد کا دورہ کرچکے ہیں ۔اکتوبر میںحزب اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم حکمت یار بھی اسلام آباد کا دورہ کر چکے ہیں ۔اکتوبر ہی میں پاکستان ۔افغانستان تجارت اور سرمایہ کاری کے عنوان سے اسلام آباد میں دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اولسی جرگہ (قومی اسمبلی ) کے وفد نے سپیکر رحمان رحمانی کی سربراہی میں شرکت کی۔ اس کانفرنس میں افغانستان کے سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔شنید یہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں حائل رکاوٹوں میں،21 نکات میں سے 16 پر اتفاق ہوگیا ہے ۔وفاقی وزیر تجارت عبدالرازاق دائود بھی وزیر اعظم عمران خان سے ایک دوروز قبل کابل کے دورے پر تھے ۔ انھوں نے دونوں ملکوںکے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ ، دوطرفہ تجارت اور غیر رسمی تجارت پر تفصیلی بات چیت کی ہے ۔کورونا وائر س کی وجہ سے بندرگاہیں اور سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے افغانستان کے گیارہ ہزار کنٹینرپاکستان میں پھنسے ہوئے تھے ۔ پاکستان نے اس مسئلے کوافغانستان کے ساتھ بیٹھ کر خوش اسلوبی سے حل کیا ۔پاکستان افغانستان پارلیمانی فرینڈشپ گروپ کو فعال کیا گیا ہے ۔دوطرفہ تجارت کے حوالے سے افغانستان کا مطالبہ تھا کہ غلام خان ،انگور اڈا اور خرلاچی کو بھی کھول دیا جائے ۔ پاکستان نے یہ کراسنگ پوائنٹس بھی تجارت کے لئے کھول دئیے ہیں ۔ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ تعلقات کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان یکساں اور آزاد ویزہ پالیسی تشکیل دی جائے لہذا تجارت ، طبی، سیاحت ، تعلیم ، اور عوامی سطح پر رابطے کی حو صلہ افرائی کے سلسلے میں پاکستان نے اپنے ویزا نظام کو بہتر بنایا اور افغانستان کے لئے انتہائی آزاد ویزہ پالیسی تشکیل دی ۔امید یہی ہے کہ نئی ویزہ پالیسی عام افغان افراد کو سہولت پہنچانے میں ممد و معاون ثابت ہو گی ۔چین ۔پاکستان اقتصادی راہدی (سی پیک ) میں بھی افغانستان نے شمولیت کے لئے حامی بھر لی ہے ۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی قیادت میں وفد کابل کا دورہ کرنے والا ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور سی پیک میں افغانستان کی شمولیت پر تفصیلی مشاورت ہو گی ۔ رواں چند مہینوں سے دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں سے لگ رہا ہے کہ اسلام آباد اور کابل نے مستقبل میں ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ڈاکٹر عبداللہ اور حکمت یار کے دوروں کے بعد کابل کی طرف سے اسلام آباد کے خلاف خاموش رہنا اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کے لئے مشاورت کے دوران ایک دوسرے پر الزامات کی بجائے مسائل اور حل تک محدود رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ا ندورن خانہ بہت کچھ چل رہا ہے ۔کابل کو امید ہے کہ اسلام آباد ،طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کر دے گا۔ بین الافغان مذاکرات میں بھی مثبت کردار ادا کریگا ۔فوری طور پر بداعتمادی کا خاتمہ اگر چہ ممکن نہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ضرور ہوئی ہے جس سے روشن مستقبل کی نوید صاف نظر آرہی ہے ۔