حزب اختلاف کی دس جماعتوں کا متحدہ محاذپی ڈی ایم زندہ تو ہے لیکن تندرست و توانا نہیں رہا۔ جو لوگ اس سال جنوری میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت رخصت ہوجانے کی تاریخیں دے رہے تھے اب جلسے جلوسوں میں بھی ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے ہیں۔ کسی جلسہ میں پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کوئی بہانہ کرکے شریک نہیں ہوتے۔ کسی عوامی اجتماع سے مسلم لیگ(ن) کی عملی سربراہ مریم نوازغائب ہوجاتی ہیں۔ کہاں اسمبلیوں سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے فوری اجتماعی استعفوں کی باتیں ہورہی تھیں اور کہاں یہ موضوع اپوزیشن کے بیانیہ سے بالکل غائب ہوگیا۔پی ڈی ایم کا آخری اجلاس اسلام آباد میں ہُوا تو پیپلز پارٹی نے چھبیس مارچ کو اسلام آباد کی جانب جلوس لیکر جانے کی بھی مخالفت کی۔ اسکا موقف تھا کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن بلدیاتی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہونگے اس لئے وہ اس سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔تاہم مولانا فضل الرحمن کایہ جلوس نکالنے پر اصرار تھا۔ن لیگ انکی ہمنوا ہوگئی۔ پیپلزپارٹی بھی دکھاوے کو سہی لیکن راضی ہوگئی۔ سینٹ الیکشن کے فوراً بعد حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے کارکنوں کو اس نام نہاد لانگ مارچ کے لئے تیاری پر آمادہ کریں گی لیکن کوئی زوردار لانگ مارچ متوقع نہیں۔ مال کے زور پر گاڑیوں کی کثرت ہوگی۔ یا مدرسوں سے تعلق رکھنے والے طلبا جن کا انتظام مولانا فضل الرحمن کو کرنا ہے۔ نظریاتی سیاسی کارکن تو جماعتوں کے پاس ناپید ہیں۔ البتہ ایسے لوگ کثرت سے موجود ہیںجو اپنے نمبر دو کاموں کے لئے ان جماعتوں کے ادوارِ حکومت میں ان سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ کسی نے زمین پرغیر قانونی قبضہ کیا۔ کسی نے منشیات فروشی کی۔ کسی نے اشتہاری مجرموں کو پناہ دی ۔ کوئی رقم بٹور کر سفارش پر سرکاری محکموں میں بھرتیاں کرواتا رہا۔ کوئی حکومتی سرپرستی میں ٹھیکہ داری کرکے راتوں رات مالدار ہوگیا۔ یہ سب لوگ جلسے جلوسوں کے وقت بروئے کار آتے ہیں۔ان کے ڈیروں پر مفت کی روٹیاں توڑنے والے اور دیہاڑی دار مزدور جلسے جلوسوں کی رونق بنتے ہیں۔ عام آدمی رضاکارانہ طور پر سیاسی اجتماعات میں شرکت نہیں کرتا۔ وہ تو ٹیلی ویژن اسکرین پر روزانہ ان لیڈروں کی لڑائی کی تماش بینی کرتا ہے۔جب کسی پارٹی کا کوئی نظریہ نہ ہو‘ اسکے پاس نظریاتی کارکنوں کی تنظیم نہ ہو اور اسکے ماضی کا بُرا ریکارڈ سب کے سامنے ہو تو عوام اسکی خاطر کیوں سڑکوں پر نکلیں گے؟ اپوزیشن کے کس قائد کی کوئی اخلاقی ساکھ ہے؟ عدالتیں انکی کرپشن پر انہیں سزا دیں یا نہ دیں انکی بے بہا دولت کی تفصیلات منظر عام پر ہیں۔ایسی دولت جسکا وہ حساب نہیں دے سکتے کہ کن جائز ذرائع سے حاصل کی گئی۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ عوام اور جمہوریت کے نام پر کسطرح ملک و قوم کو لُوٹا گیا۔ ہمارے نام نہاد لیڈر کس طرح اربوں پتی بن گئے جبکہ عوام الناس کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ وہ نکاسیٔ آب کے نظام سے محروم ہیں۔ ملک کی اسّی فیصد آبادی غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ خاندان اپنے مکان سے محروم ہیں۔سندھ جہاں پیپلزپارٹی کی بارہ برس سے مسلسل حکومت ہے انسانوں کی اکثریت جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ لوگ ان سیاسی پارٹیوں کی خاطر سڑکوں پر نکلیں گے ‘یہ انکی خام خیالی ہے۔موجودہ حکومت سے عوام کو مہنگائی بڑھ جانے کی شکایت ہے لیکن اسکی متبادل جماعتوں کولوگ تیس پینتیس برس سے آزماتے آرہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اگلے جنرل الیکشن میں عوام ووٹ دیکر تحریک انصاف کے خلاف اپنا غصہ نکالیں لیکن اس حکومت کو ہٹانے کیلئے جس قسم کے تگڑے ‘ طویل مدتی احتجاج کی ضرورت ہے عوام اسکے لیے تیار نظر نہیں آتے۔یہ ضرور ہے کہ دس بارہ دنوں کے لئے ٹیلی ویژن چینلوں پر اپوزیشن کی کوریج بڑھ جائے گی۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے میڈیا پر مسلسل نظر آتے رہنے کا سب سے بڑا فائدہ تو مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو ہوا ہے جنکی اپنی اپنی پارٹیوں کے نئے لیڈرز کے طور پر پہچان پکی ہوگئی ہے۔اس سے پہلے پیپلزپارٹی کے بڑے لیڈر آصف علی زرداری تھے جو اب عوام کی حد تک پس منظر میں چلے گئے ہیں گو پس پردہ اب بھی اہم فیصلے انکے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ‘ مسلم لیگ(ن) میں کشمکش تھی کہ مریم نواز پارٹی کو سنبھالیں گی یا شہباز شریف۔ اب معاملہ صاف ہوگیا ہے۔ مریم نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا حال بھی پتلا ہے۔ وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کی خاطر کچھ ایسا خاص نہیں کرپارہے جس کا واضح مثبت اثر عوام محسوس کرسکیں۔ اپوزیشن لیڈروں کو کرپشن کے مقدمات میں سزا نہیں ہورہی۔ موجودہ حکومت کے دور میں کرپشن کے کسی مقدمہ میں کسی سیاسی لیڈرکو سزانہیں ملی۔ یہ نیب کی کمزوری ہے یا قانونی نظام ایسا ہے کہ کرپشن کے مقدمات ثابت کرنا مشکل ہے جو بھی ہے عمران خان کی پوزیشن کو دھچکا لگا ہے کہ وہ اس گلے سڑے نظام کی اصلاح نہیں کرسکے۔ سوِل افسر شاہی بھی مکمل طور پر انکے تابع نظر نہیں آتی۔انکی حکومتی نظام پر گرفت کمزور ہے۔ قومی اسمبلی میں انکی حکومت ایم کیو ایم اور ق لیگ ایسے اتحادیوں کے سہارے پر کھڑی ہے۔ سینٹ کے الیکشن کے بعد بھی انکی پارٹی کو ایوان ِبالا میں سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوگی بلکہ وہ اتحادیوں کے رحم و کرم پر ہوںگے۔ نہ ہ اپنی مرضی سے آئین میں ترمیم کرسکتے ہیں نہ کوئی قانون بناسکتے ہیں۔ ان حالات میں وہ کسی بھی شعبہ کو بہتر کیسے بناسکتے ہیں؟ انہیں ایک لُولا لنگڑااقتدار ملا ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہے کہ نظام کی ساری برائیاں اُن کے کھاتہ میںجارہی ہیں۔ اب تک عوام کو انکی حکومت اور سابقہ حکومتوں میں کوئی واضح فرق محسوس نہیں ہوسکا۔ا گراسی برس بلدیاتی الیکشن ہوگئے تومزید افراتفری پھیلے گی۔تحریک انصاف مقامی سطح پر چودھراہٹ حاصل کرنے کیلیے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوجائے گی۔زیادہ امکان ہے کہ ان کی جماعت پنجاب کے وسطی اضلاع میں ن لیگ کے ہاتھوں شکست کھاجائے اور یہاںانکی کمزورصوبائی حکومت کا انتظامیہ پر کنٹرول مزیدڈھیلا پڑ جائے۔ اگر بلدیاتی الیکشن صاف ستھرے اور منصفانہ ہوئے جو ماضی میں کبھی نہیں ہوئے تب بھی عمران خان کو نقصان ہوگا۔ اگر ان میں ماضی کی طرح دھاندلی کی گئی تو ان کی شہرت خراب ہوگی۔پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ اور کلچر ایسا ہے کہ اس میں رہتے ہوئے عوام کے مفاد میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی۔ یہ نسلی‘ لسانی بنیادوں پرسیاست کرنے والے مقامی سیاستدانوں ‘ بدعنوان افسر شاہی اور بددیانت بزنس مینوں کے گٹھ جوڑ پر مبنی نظام ہے۔ یہ سسٹم سفارش اورمالی بددیانتی کے ستونوں پر کھڑا ہے۔اس بات کا امکان کم ہے کہ عمران خان اس فریم ورک میں رہتے ہوئے عوام کے مفاد میں کو ئی قابل ذکرکام کرسکیں۔