’’یہ زندگی صرف ایک پھول کو جھک کر دیکھنے‘ اس پر غور کرنے کے لیے ناکافی ہے اور یہ دنیا تو بہت بڑی ہے‘‘ زندگی ناکافی ہے‘ دیوسائی کے ایک پھول ایک بادل‘ ایک ریچھ کو دیکھنے کے لیے بھی‘ اس سے پیشتر مجھے کبھی احساس نہ ہوا تھا کہ یہ زندگی یہ دنیا دیکھنے کے لیے ناکافی ہے، بہت مختصر ہے۔ اس کا احساس شدت سے مجھے پچھلے دنوں ہوا جب میں ویت نام گیا۔ ویت قبائل کا ملک۔ میری آوراگی کی خواہشوں کی کسی کتاب میں ویت نام کا نام نہ تھا۔ اگرچہ امریکہ کے خلاف ویت نام کی جنگ میری جوانی کے وحشی جذبات کا سب سے بڑا ارمان تھا۔ سب سے بڑا ہیجان تھا۔ یہ جنگ ہم سب کے خون میں گردش کرتی تھی۔ایک جانب تیسری دنیا کا ایک کمزور اور لاچار ملک تھا۔ جس کا رقبہ ہمارے بلوچستان سے بھی کم ہو گا اور دوسری جانب دنیا کی سب سے قاہر اور طاقت ور سپر پاور تھی جس نے اپنے اسلحے کے انباروں سے، بمبار طیاروں سے، جنگی ہیلی کاپٹروں اور جدید ترین ہلاکت کے ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کی بربریت سے پورا ویت نام جلا کر راکھ کر دیا۔ نیپام اور ریجنٹ اورنج سے ہزاروں بستیوں کو بھسم کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جہاںجہاں ویت نام کی زمین تھی وہاں جو کچھ بھی تھا۔ انسان‘ جانور‘ جنگل اور پھول سب کے سب آگ کے سپرد ہوئے، یہاں تک کہ جھیلیں اور دریا بھی سلگ اٹھے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی بھی حساس شخص ہو بلکہ ایک انسان ہو تو وہ امریکہ کا طرفدار ہو، تو ہم سب ویت نام کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتے تھے۔ خاک نشینوں کی عرش نشینوں کے خلاف جنگ سمجھتے تھے۔ پاکستان میں بھی اس جنگ کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے لیکن ہماری مذہبی جماعتوں نے بے اعتنائی اختیار کی کہ ان زمانوں میں وہ امریکہ سے بہت لگائو رکھتی تھیں۔ بے دین سوویت یونین کے خلاف دین دار امریکہ کے گیت گاتی تھیں۔ یہاں تک کہ کراچی میں امریکہ کے خلاف ایک جلوس نکلا تو ان جماعتوں کے لٹھ بردار ان پر حملہ آور ہو گئے۔ ہم میں سے بیشتر ہر گز’’سرخے‘‘وغیرہ نہ تھے البتہ آج کی ایک راندۂ درگاہ اصطلاح کے مطابق’’روشن خیال‘‘ تھے یعنی ترقی پسند تھے ہم ’’تاریک خیال‘‘ نہیں ہو سکتے تھے اور لطف یہ ہے کہ ویت نام کی جنگ کے خلاف سب سے بڑے مظاہرے امریکہ اور یورپ میں ہو رہے تھے۔ ان دنوں جب افریقہ اور ایشیا کے بہت سے ممالک مغرب کے تسلط کے خلاف آزادی کی جنگیں لڑ رہے تھے۔ جدوجہد کر رہے تھے تو ویت نام کی جنگ ان سب کے لیے مشعل راہ تھی۔اگر ویت نام ایسا مختصر ملک گرچہ روسی اسلحہ کے ساتھ امریکہ سے ہار نہیں مان رہا تو ہم کیوں مانیں۔ ہماری نسل کے آئیڈیل سب کے سب اپنی محکومی سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ تھے۔ ابتدا میں جمال عبدالناصر‘ جس نے نہر سویز کو مصر کی ملکیت قرار دیا اور اسرائیل ‘ برطانیہ اور فرانس اس پر حملہ آور ہو گئے۔ افریقہ کا پیٹرس لوممبا جسے قتل کر دیا گیا۔ انڈونیشیا کا سوئیکارنو جس نے ہندوستان کے ساتھ جنگ کے دوران اپنی فوج بھیجنے کی پیشکش کی۔ چین کا مائوزے تنگ اور چواین لائی، گھانا کا نکرومہ، بولیویا کا چے گویرا‘ کیوبا کا فیڈل کاسترو …اور ضیاء الحق اسے ایک بار ’’فیڈرل کاسترو‘‘ کہہ گئے تھے اور پھر ویت نام کا ہوچی منہہ جسے انکل ہو کہا جاتا تھا اور ویت نام کے حق میں نکالے گئے جلوسوں میں سب سے پسندیدہ نعرہ ’’ہوہو‘‘ ہوچی منہہ ہوا کرتا تھا۔ نوجوانی کے اوائل میں جس طرح نپولین کی شخصیت نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا اور مجھے ان دنوں اس کی سب جنگوں کی پوری حکمت عملی سے آگاہی ہوا کرتی تھی۔ کیوں کہ میں جانتا تھا کہ واٹر لو کے میدان میں اس کے گھڑ سوار کسی جانب سے حملہ آور ہوتے تھے اور رات کی بارش کی وجہ سے ان کے گھوڑے پھسلے اور سب ہلاک ہو گئے چنانچہ جب بلجیم کی ایک ادبی انجمن نے مجھے برسلز میں مدعو کیا تو میں نے ایک ہی شرط رکھی۔ آپ مجھے واٹر لو کا میدان دکھائیں گے اور جب گائیڈ نے ہمیں یہ بتایا کہ خواتین و حضرات، نپولین کی فوج اس میدان کے آخر میں جو جنگل ہے وہاں خیمہ زن تھی۔ انگریزوں کی سپاہ ڈیوک آف ویلنگٹن اس ہرے بھرے میدان میں منتظر تھے اور ہمارا پرنس اورنج‘ اس فارم ہائوس کے عقب میں حملے کے لیے تیار تھا تو میں نے کہا ’’میں جانتا ہوں‘ میں جانتا ہوں‘‘ اور جب گائیڈ نے حیران ہو کر کہا کہ آپ کیسے جانتے ہیں؟ تو میں نے کہا تاریخ آپ کا کاروبار ہے جبکہ یہ میرا جذبہ ہے لیکن ویت نام کی جنگ کے دوران ایک عجب انکشاف ہوا۔ ظاہر ہے اس جنگ کے بارے میں جو تحقیق کی اس کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا کہ ویت نام کا ایک جنرل ہے جس کا نام گیاپ ہے اور اس عہد کے جنگی ماہرین میں بیشتر مغرب کے تھے۔ انہوں نے نپولین سے بڑا جنگ کے فن اور افواج کی ترتیب کا جینئس قرار دیا ہے۔ اس نے نہ صرف چین کے خلاف ایک جنگ جیتی بلکہ ویت نام پر قابض فرانسیسیوں کو‘ اور وہ بھی ایک سپر پاور تھے۔’’ڈین بین پُھو‘‘ کے میدان میں شکست فاش دی۔اگرچہ میں اس جنگ کی پوری حکمت عملی بیان کر سکتا ہوں، میں آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا۔ مختصر یہ کہ ایک ہی رات میں گیاپ نے اپنی ایک سو بھاری توپیں ان کے پرزے الگ کئے‘ انہیں نہ صرف خچروں پر لادا بلکہ سینکڑوں بائیسکلوں پر باندھ کر شدید بارش کے باوجود اس پہاڑی کی چوٹی پر لے گیا جس کے نشیب میں فرانسیسی فوج خیمہ زن تھی۔ ان توپوں کو جوڑا اور جب سویر ہوئی تو ابھی تک بے خبر اور خوابیدہ فرانسیسی فوج پر ان توپوں کے منہ کھول دیے۔ فرانسیسی کمانڈر ان چیف اپنے مورچے سے باہر آیا‘ ہاتھ کھڑے کر کے کہنے لگا’’مجھے شوٹ نہ کر‘ میں ہتھیار ڈالتا ہوں‘‘ یہی جنرل گیاپ‘ ہوچی منہہ کے مشوروں سے امریکیوں کے خلاف برسر پیکار تھا۔ آپ نے بے شک نپولین ‘ ولیم دے کانکرر اور ہینی بال وغیرہ کا تذکرہ بار بار پڑھا ہو گا لیکن یقینا جنرل گیاپ سے واقف نہ ہوں گے کہ مغرب حکمران ہے‘ وہ نہ صرف خالد بن ولیدؓ ‘ غزنی کے محمود‘ سعد بن ابی وقاصؓ سے غفلت برتتا ہے بلکہ جنرل گیاپ کی جنگلی عظمت کا اعتراف اس لیے نہیں کرتا کہ یہ وہ شخص ہے جس نے نہ صرف فرانس کو بلکہ بالآخر امریکہ کو بھی شکست دی۔جنرل گیاپ ابھی دو سال پیشتر فوت ہوا۔امریکہ اور مغرب کے اخباروں میں اس کا زیادہ چرچا نہ ہوا۔ بہرحال ویت نام میری آشفتہ سری اور آوارگی کے جنون کی کسی کتاب میں درج نہ تھا اور اس کے باوجود۔ میں ویت نام کی جانب اڑان کر رہا تھا۔ آخر کیوں؟ صرف اس لیے کہ میرا چھوٹا بیٹا جو بنیادی طور پر سول سروس کے امتحان میں سرخرو ہو کر محکمہ کسٹم کے منسلک ہوا۔ لاہور ایئر پورٹ کا اور واہگہ کسٹم کا انچارج رہا‘ ان دنوں ہنوئی کے پاکستانی سفارت خانے میں فرسٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائزہے۔ تجارت کے شعبے سے منسلک تھا۔ اسے اپنے والدین سے بہت شکوہ تھا کہ آپ سلجوق بھائی کے پاس آتے جاتے رہتے ہو صرف اس لیے کہ وہ یواین او میں تعینات ہیں اور نیو یارک میں ہیں۔ عینی کے پاس جاتے ہو کہ وہ فلوریڈا میں رہتی ہے اور میرے پاس نہیں آتے کہ میں بے چارے ویت نام میں رہتا ہوں۔ سمیر ہمارا‘ بے بی‘ تھا چنانچہ ہم اس کو خاموش کرنے کے لیے کسی حد تک مجبوراً ویت نام جاتے تھے۔ ہنوئی کی پرواز جب دھیرے دھیرے بلندی سے اترنے لگی تو جہاز کی کھڑی سے ہریاول میں ایک اژدھے کی مانند رینگتا ایک دریا نظر آیا۔ یہ ’’سُرخ دریا‘‘ تھا۔ (جاری)