وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے مزدور کی کم از کم اُجرت 20ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا ہے جوکہ اچھی پیش رفت ہے ، اگر دیکھا جائے تو مہنگائی کے حساب سے یہ تنخواہ بھی کم ہے مگر یہ بات اس لحاظ سے بہتر ہے کہ سردار عثمان خان بزدار نے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہتر تنخواہ کا اعلان کیا ہے ۔اب دوسرے صوبوں کو بھی ان کی تقلید کرنا ہوگی ۔اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حکومت جو اعلان کرے اس پر عمل درآمد بھی کرائے کہ عثمان خان بزدار کا تعلق جس وسیب سے ہے وہاں دیہاتوں میں ذاتی ملازم کو 20تو کیا 10ہزار بھی نہیں ملتے اور وہ آٹھ گھنٹے کی نہیں بلکہ 24گھنٹے کے ملازم ہوتے ہیں۔صرف ایک شعبہ نہیں بلکہ درجنوں شعبے ایسے ہیں جن کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ایک محکمہ تعلیم کو بھی دیکھ لیں کہ دیہاتوں اور قصبوں میں پرائیویٹ سکول اُستانی کو محض پانچ سے چھ ہزار میں ملازم رکھتے ہیں ،پانچ چھ ہزار پر رکھی گئی اُستانیوں کی کوالیفکیشن چیک کی جائے تو گریجویشن کے ساتھ ساتھ ایم اے ڈبل ایم اے استانیاں بھی اسی تنخواہ پرکام کررہی ہوتی ہیں۔ عثمان خان بزدار نے یہ بھی کہا ہے کہ مفت تعلیم کے علاوہ ہم نے 7ارب روپے کی ٹیلنٹ سکالر شپ بھی دی ہے یہ بھی اچھی بات ہے مگر محروم اور پسماندہ علاقوں میں سابقہ پالیسی بحال کی جائے ، جس میں وسیب کی یونیورسٹیوں کو پسماندہ علاقوں کی یونیورسٹیاں قرار دیتے ہوئے طلباء کو ساٹھ فیصد فیس واپس کر دی جاتی تھی۔وسیب میں اس کا بہت اچھا اثر ہوا تھا داخلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا ۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدا رآنے کے بعد یہ سکیم ختم ہوئی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے غریب طلباء نے مجھے بتایا کہ ہم نے اسی سکیم کو سامنے رکھتے ہوئے داخلے لئے مگر ’’سر منڈاتے ہی اولے پڑے‘‘ کے مصداق ادھر ہم نے داخلہ لیا اُدھرپچھلی حکومت کے ساتھ سکیم بھی ختم ہو گئی۔ اب ہم غریبوں کے لیے مشکل ہو رہاہے نہ پڑھائی چھوڑ سکتے ہیں نہ جاری رکھ سکتے ہیں۔وزیر اعلیٰ کو نہ صرف اسلامیہ بلکہ زکریا ،غازی اور خواجہ فرید یونیورسٹی کو بھی اس سکیم میں شامل کرنا چاہیے۔عثمان بزدار صاحب کو اس بات پر بھی توجہ کرنا چاہیے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شاہ سلمان کروڑوں روپے کی لاگت سے اسلام آباد میں شاہ سلمان مسجد بنوا رہے ہیں یہ مسجد وسیب میں بننی چاہیے کہ عرب شہزادے وسیب کو صرف شکار کے لئے منتخب نہ کریں ۔ بزدار صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ فیصل آباد میں 300ایکڑ اراضی پر بزنس پارک قائم کیا جائے گا ، ایکسپو سنٹر بھی بنائیں گے ، ضرور بننے چاہئیں ہر جگہ بننے چاہئیں مگر سب کچھ ایک جگہ نہیں رکھنا چاہیے ۔ پسماندہ علاقوں کو بھی ترقی ملنی چاہیے ، نواز شریف اور شہباز شریف دور میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا اور انہوں نے مخصوص علاقوں کو ترقی دی ، مجھے یاد آ رہا ہے کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اپنے دور میں تین ٹیکس فری انڈسٹریل زون کی منظور ی دی ان میں ایک گدون امازئی دوسرا نوری آباد اور تیسرا ملتان بہاولپور کے درمیان بستی ملوک کے ساتھ بننا تھا ، جونہی محمد خان جونیجو کی حکومت ختم ہوئی ،گدون امازئی اور نوری آباد بنا دئیے گئے مگر بستی ملوک والا منصوبہ چونیاں چلا گیا ۔ عثمان خان بزدار کوسابقہ حکمرانوں کی تقلید نہیں کرنی چاہیے وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون بننے چاہئیں اور وسیب میں تعلیمی ادارے خصوصاً وسیب کے منظور شدہ خانپور کیڈٹ کالج، ملتان کیڈٹ کالج ، اور ڈی جی خان کیڈٹ کالج کا فوراً کام شروع کرا دینا چاہیے اور وسیب کے ہر ضلع میں کیڈٹ کالج کا قیام ضروری ہے کہ یہ عسکری نرسریاں ہیں ۔ عمران خان حکومت کی وسیب پر توجہ بہت کم ہے انہوں نے فاٹا کو کھربوں کا پیکیج دیا ہے جبکہ وسیب کو صرف لولی پاپ مل رہے ہیں ایک لولے لنگڑے سیکرٹریٹ کا اعلان ہوا تو اب بھی اُس کی حالت یہ ہے کہ افسروں کے پاس نہ کوئی اختیار ہے نہ فنڈز اور نہ بیٹھنے کی جگہ ، بے توقیر ہو کر وہ مارے مارے پھر رہے ہیں صرف تقریروں سے مسئلے حل نہیں ہوتے عملی اقدامات کرنا ہوتے ہیں ۔صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے کہا ہے کہ اس مرتبہ جنوبی پنجاب کے بجٹ کی کتاب الگ ہو گی ،سوال یہ ہے کہ پچھلے بجٹ میں آپ نے جو اعلان کیا وہ بھی بجٹ ہی تھا اور اس کا اندراج بھی کسی کتاب میں آپ نے کیا، سول سیکرٹریٹ کے لیے تین ارب سے زائد رکھے گئے اس وقت تک ایک روپیہ خرچ نہیں ہوا ،ذمہ دار کون ہے ؟دو روز قبل ملتان پریس کلب میں رحیم یار خان سے ایک بیوہ شاہد تسنیم درانی اور اس کی بیٹی حناء تسنیم درانی پریس کانفرنس کر رہی تھیں اور وہ کہہ رہی تھیں کہ ہماری زمینوں پر مخدوم خسرو بختیار اور مخدوم ہاشم جواں بخت کے فرنٹ مین رشید خان کورائی نے قبضہ کیا ہوا ہے ، وہ سب کے سامنے رو رہی تھیں آج اقتدار ملا ہے تو غریب کو انصاف دو اور سابقہ حکمرانوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے منشور میں یہ شامل تھا کہ مسلم لیگ ن بر سر اقتدار آنے کے بعد پنجاب میں دو نئے صوبے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے بنائے گی۔ ن لیگ بر سر اقتدار آئی ، پنجاب اور مرکز میں اسے واضح دو تہائی اکثریت حاصل تھی ۔ اسکے باوجود اس نے اپنے وعدے کے مطابق پنجاب میں دو تو کیا ایک بھی صوبہ نہ بنایا کے کروڑوں محروم عوام کی بد دعائیں میاں نواز شریف کو لے ڈوبیںیہ حقیقت ہے کہ وسیب سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی شکست اسی بناء پر ہوئی کہ تحریک انصاف نے صوبہ بنانے کا وعدہ کیا اور وسیب کی محرومی ختم کرنے کا اعلان کیا مگر بر سر اقتدار آنے کے بعد حکمران یہ سب کچھ بھول چکے ہیں ۔پارلیمان کی تاریخ میں کسی بھی جماعت کا منشور اس کے لئے مقدس دستاویز ہوتا ہے اور جس منشور کی بناء پر مینڈیٹ حاصل کیا جائے ، اس پر عمل کرنا صرف اخلاقی نہیں ، قومی اور آئینی ذمہ داری بھی بن جاتی ہے اور جو جماعت اپنے ہی آئین پر عمل نہ کرے وہ سب سے بڑی قانون شکن جماعت کہلاتی ہے اور آئین پاکستان کی دفعہ 62، 63 اس پر از خود لاگو ہو جاتی ہے ۔یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ڈسکہ کی شکست کے بعد تحریک انصاف جس نے ایک جماعت کو کالعدم قرار دیا اس کا تیسرے نمبر پر آنا اور کالعدم قرار دینے والی تحریک انصاف کا چھٹے نمبر پر آنا اس بات کا غماز ہے کہ لوگ اب عمران خان سے محبت نہیں کرتے ہیں ۔اب بھی وقت ہے کہ معاملات کو سنبھال لیا جائے۔