یہ آج سے بائیس تیس سال پہلے کی بات ہے‘ پاکستان نے پہلی بار غوری میزائل کا تجربہ کیا جس نے خطے میں پاکستان کے سائنس دانوں اور تکنیکی ماہرین کی دھاک بٹھا دی‘ غوری میزائل کے تجربے کے بعد صرف عوام ہی نہیں عسکری ماہرین بھی یہ سوچنے لگے کہ غوری میزائل ابتدا ہے‘ کسی نہ کسی دن پاکستان نیوکلیئر دھماکہ بھی کر گزرے گا کہ درویش منش سائنس دان عبدالقدیر خان نے تیس سال صرف غوری میزائل کی تیاری پر صرف نہیں کئے ‘ ان کی پوٹلی میں اور بھی بہت کچھ ہوگا۔ میں دفتری کام کے سلسلے میں کراچی گیا تو ممتاز دانشور نصرت مرزا مجھے اپنے ایک دوست کے ہاں کھانے کی محفل میں لے گئے جہاں عوامی جمہوریہ چین کے قونصل جنرل بھی مدعو تھے۔ موضوع گفتگو فطری طور پر پاکستان کا میزائل تجربہ تھا اور پاکستانی سائنس دانوں کے علاوہ اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کی تحسین کی جا رہی تھی‘ ایک دوست کو نجانے کیا سوجھی وہ چینی قونصل جنرل سے اظہار تشکر کرنے لگے کہ عظیم دوست چین نے ہمیں میزائل ٹیکنالوجی فراہم کی اور تجربے میں مدد دی‘ قونصل جنرل کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے‘ ہمارے پاکستانی بھائی معلوم نہیں اپنے کسی کارنامے پر فخر کرنے کی عادت کب ڈالیں گے؟ انہوں نے کہا : آپ یہ کیوں ماننے کے لیے تیار نہیں کہ آپ کے قابل اور باصلاحیت سائنس دان سٹیٹ آف دی آرٹ میزائل بنانے اور کامیاب تجربہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ انہیں چین یا کسی دوسرے دوست ملک سے مدد لینے کی ضرورت نہیں‘ آخر آپ اپنے ہر اچھے کام کا کریڈٹ دوسروں کو کیوں دیتے اور ہر برائی کو اپنے کھاتے میں کیوں ڈالتے ہیں؟ مجھے پاکستان کے آزمودہ دوست اور قابل اعتماد ہمسائے چین کے سفارت کار کی نصیحت اکثر یاد آتی ہے‘ بیس سالہ خواری کے بعد امریکی و نیٹو فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد یار لوگ سیدھے سبھائو طالبان کی کامیابی تسلیم کرنے کے بجائے کبھی کسی گریٹ گیم کا حصہ قرار دیتے ہیں اور گاہے امریکہ‘ طالبان ملی بھگت کا نتیجہ‘ پاکستان نے امریکہ طالبان مذاکرات اور سمجھوتے سے اپنے ازلی دشمن بھارت کو جس طرح افغانستان سرزمین سے بے دخل کیا اس کا اعتراف کرنے کے بجائے حکومت کو ڈرایا جارہا ہے کہ یہی طالبان کل کلاں کو ہمارے گلے پڑیں گے‘ اشرف غنی کے ذلت آمیز‘ رسواکن فرار پر امریکہ برہم ہے اور سابقہ حکومت کے اہم عہدیدار شرمندہ مگر ہمارے ہاں ایک بزدل‘ کرپٹ اور مفرور حکمران کا موازنہ عمران خان سے کیا جا رہا ہے جس کی افغانستان اور اس کے سابقہ حکمران ہی نہیں امریکہ کی عسکری حکمت عملی کے حوالے سے رائے درست ثابت ہوئی اور جس کا امریکی فرمائش رد کرنے کے حوالے سے ایک جملہ Absolutely Not تاریخ میں امر ہو چکا ہے۔ یہی وہ مرعوب اور شکست خوردہ ذہنیت ہے جس نے صرف پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کو کسی کام کا نہیں چھوڑا‘ بھارت کی حکومت‘ فوج اور خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے اندرون اور بیرون ملک دہشت گردی‘ تخریب کاری اور سازشوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔افغانستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور تخریب کاروں کے تربیتی کیمپ قائم کر کے دو عشرے تک پاکستان کی ناک میں دم کئے رکھا۔ سرمایہ کاری کا جھانسہ دے کر ایران میںکلبھوشن جادیو جیسے دہشت گردوں کو نیٹ ورک قائم کرنے کی سہولت فراہم کی مگر مجال ہے کہ ہمارے مرعوبِ فطرت سیاستدانوں اور دانشوروں نے اس پر زبان کھولی ہو‘ پٹھان کوٹ اور پلوامہ میں مگر جونہی بھارت نے فالس فلیگ آپریشن کیا ہمارے سابقہ حکمران‘ ان کے اتحادی سیاستدان اور دانشور‘ تجزیہ کارصدق دل سے ایمان لے آئے کہ یہ آئی ایس آئی کا کیا دھرا ہے اور بھارتی بولی بولنے لگے۔ افغانستان میں بھارت کی حکومت اور ’’را‘‘ کو تاریخی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا‘ امریکہ اور بھارت کی خفیہ کاری شرمناک انداز میں ناکامی سے دوچار ہے جبکہ پاکستان کے حکمرانوں اور ریاستی اداروں نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا مگر مجال ہے کہ کسی ایک کے منہ سے کلمہ خیر نکلا ہو‘ مرعوبیت اور شکست خوردگی کا یہ عالم ہے کہ ان میں سے کوئی طالبان کی کامیابی کو نہتے اور بے وسیلہ مگر غیرت مند ‘خوددار جنگجوئوں کا کارنامہ ماننے پر آمادہ ہے نہ پاکستان کی چومکھی لڑائی میں فتح کی داد دینے کا روادار‘ پاکستان نے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے انکار کیا تو کہا گیا کہ آپ سے یہ اڈے مانگے کس نے ہیں؟ اور اب جبکہ امریکہ نے انخلا میں مدد کی درخواست کی اور امریکی و نیٹو شہریوں کو چند روزہ قیام کی سہولت فراہم کی گئی تو اسے اڈے فراہم کرنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ گویا فوجی اڈے فراہم کرنے اور جلد انخلا میں مدد دے کر افغانستان کی آزادی و خود مختاری کو یقینی بنانے میں کوئی فرق ہی نہیں ۔بریں عقل و دانش بباید گریست۔ مجھے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی کراچی کے جلسے میں ویڈیو لنک پر تقریر کے دوران یہ جملہ سن کر تعجب سے زیادہ شرمندگی ہوئی کہ ’’بائیڈن عمران خان کو فون کرتا نہیں اور نریندر مودی ہمارے وزیر اعظم کا فون سنتا نہیں‘‘ گویا پاکستان کے کسی وزیر اعظم کے لئے یہ بھی باعث فخر بات ہے کہ ازلی دشمن ریاست کا وزیر اعظم اس کا فون سنے اور بھارت کے سٹریٹجک پارٹنر امریکہ کا صدر اسے فون کرے ‘خواہ فون پر اپنی شرائط ہی کیوں ڈکٹیٹ نہ کرائے‘پاکستانی قوم آخر اس بات پر کیوں فخر نہ کرے کہ اس کی حکومت اور قومی اداروں نے حالیہ دنوں میں افغانستان میں اپنے قومی مفادات اور سٹرٹیجک پوزیشن کا بطریق احسن دفاع کیا۔ جس سے امریکہ اور بھارت دونوں پریشان اور برہم ہیں اور ان دونوں ممالک کے حکمران عمران خان سے بات نہ کر کے اپنی خفت مٹا رہے ہیں‘ہر غیرت مند‘عزت دار اور صاحب ایمان پاکستانی سجدہ شکر کیوں ادا نہ کرے کہ صرف چار عشروں میں کلمہ گو افغانوں نے دو سپر پاورز کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا اور اس کامیابی میں کوئی دوسری طاقتور ریاست یا قوم حصہ دار نہیں ۔ ہم میںاپنے کسی کارنامے پر فخر کرنے کی جرأت کب اور کیسے پیدا ہوگی؟مجھے چینی قونصل جنرل کی بات ایک بار پھر یاد آئی۔