تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا نہ ملے ہو نہ فاصلہ رکھا نہیں چاہا کسی کو تیرے سوا تو نے ہم کو بھی پارسا رکھا آپ یقینا سوال کریں گے کہ پہلے شعر میں ’’تم‘‘ اور دوسرے میں ’’تو‘‘ یہ تم سے تو کیوں؟ یہ سب بے تکلفی ہے کہ آپ سے تم اور پھر تم سے تو ہوئے۔ فی الحال ہم آتے ہیں بجٹ کے سلسلہ میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی تقریر کی طرف ، جو شور شرابے کی نذر ہو گئی۔ حکومتی ارکان لگا تار آوازیں کستے رہے۔ خیر یہ تو ہوتا ہے کہ جیسے مشاعروں میں ہو‘ سنگ مشاعرہ سننے والوں کا حق ہے اسی طرح اپوزیشن لیڈر کی تقریر پر حکومتی بنچوں کا بنچ بجانا مگر دلچسپ پہلو جو ہم حرز جاں کیا وہ جناب سپیکر کا انداز یا اسلوب تھا کہ وہ بھی مسلسل ہلڑ بازی کرنے والوں کو منع کئے جا رہے تھے بہرحال آپ کے یہی جمہوری چلن ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ بزدار صاحب فرما رہے ہیں کہ اپوزیشن کا کام تو شور مچانا رہ گیا ہے: میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ تھام کے لو کو بڑھا دیا کہ یوں کوئی سیخ پا ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ ایک دوست نے اچھی نکتہ آفرینی کی کہ بجٹ میں چینی مہنگی کی گئی ہے قرین قیاس یہی ہے کہ یہ صرف رعایت لفظی تھی۔ چینی کے مہنگا کرنے پر حکومت کو داد تو دینی پڑے گی کہ یہ چینی سفید زہر ہے۔ اسی طرح سگریٹ کا مہنگا ہونا بھی صائب ہے اور میک اپ کا گراں ہونا بھی بہتر اقدام ہے کہ صحیح صورتیں سامنے آئیں گی۔ ایک بات پر تو ہم اپنے دوست کو داد ضرور دیں گے میرے معزز قارئین! میں اپنی معلومات وغیرہ آپ کے ساتھ شیئر کرلیتا ہوں۔ ہمارے مرزا محمد عباس فرماتے ہیں کہ افسوس ان لوگوں پر جو پڑھے بغیر لکھتے ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جو لوگ بغیر پڑھے کالم لکھتے ہیں ان کا کالم بھی کوئی نہیں پڑھتا۔ ایسے ہی ایک پرانا شعر اسی مناسبت سے یاد آ گیا: پڑھتے ہیں سبھی مجھ کو سنتے ہی سبھی تجھ کو میں نے تجھے لکھا ہے تو نے مجھے گایا ہے بجٹ پر پیچ و تاب کھانے سے کچھ نہیں ہوگا کہ یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں یا پھر اتنے پیسوں میں۔ اب ہمارے اساتذہ اپنی جگہ درست ہیں کہ احتجاج کرنے نکلے ہیں کہ دس فیصد کا اضافہ ان کے ساتھ مذاق ہے۔ یہ اضافہ پچاس فیصد ہونا چاہیے۔ ویسے پچپن فیصد کا اندازہ تھا مگر اب تو وہ توپ کے لائسنس کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ بعض جگہ حکومت نے پچیس فیصد اضافہ تو کیا تھا ۔ ویسے اب تک سرکاری ملازمین زرداری کو نہیں بھولے اور سوشل میڈیا پر یاد دہانی کے لیے اس دور کا تراشہ لگا رہے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافہ مجھے بس یا د ہے کہ اس پر ن لیگ برہم ہوئی تھی کہ زرداری صاحب سرکاری ملازمین کی عادتیں بگاڑ رہے ہیں۔ سچی بات ہے کہ خاص طور پر اساتذہ تو اب تک بھٹو کو یاد کرتے ہیں کہ انہوں نے اس طبقے کو اپ لفٹ کیا تھا اور ان کو بہت زیادہ بوسٹ اپ کیا تھا۔ اس حوالے سے بلاول بھی اسی طرح سے سوچتے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ سندھ والے پچاس فیصد اضافہ کردیں گے۔ بھٹو کے لیے تو ایک شعر ہم کہہ سکتے ہیں: کیا بتائوں تمہیں کیسا ہے بچھڑنے والا ایک جھونکا ہے جو خوشبو سی اڑا جاتا ہے ہم اگرچہ موجودہ بجٹ پر کسی حد تک خوش ہی ہیں کہ آپ یہی پڑھ چکے ہوں گے چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔ بھائی اسی پر شکر گزار کرلو۔ مگر ایک بات تسلسل سے ڈرا رہی ہے اور اس کا تذکرہ محترم سراج الحق نے کیا ہے کہ بجلی‘ گیس اور پٹرول بم تیار ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ان کی بات سچی ہو۔ ویسے دل تو ہمارا بھی دھڑکتا ہے کہ ہماری خوشی کو یوٹرن کر دینا حکومت کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ چلتے چلتے میں بتاتا چلوں کہ تنوری روٹی 8 سے 10 روپے بڑی خاموشی سے کردی گئی۔ گویا دس روٹیوں پر 20 روپے اضافہ۔اب باری ہے خمیری روٹی اور نان کی۔ آٹے کے بارے میں تو آپ کو معلوم ہو گیا کہ وارننگ کے ساتھ ساتھ یہ مہنگا ہو چکا ہے۔ حکومت فقط اتنا ہی کہہ سکے گی کہ جناب یہ مافیاز ہیں ہم کیا کریں۔ اب حکومت سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ یہ کریں کے مستعفی ہو جائیں؟ اب کہاں سے امیر محمد خان آئے جو ان منہ زور تاجروں کو کان پکڑوائے۔ میں صرف منافع خور اور ذخیرہ اندوز تاجروں کی بات کر رہا ہوں۔ ویسے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ بجٹ کے پاس کروانے کے لیے عثمان بزدار نے ق لیگ والوں کو راضی کرلیا۔ یہ الگ بات کہ ان کے پاس راضی ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ وہ آئے دن یونہی ناراض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ ان پر خان صاحب کے بہت احسانات ہیں۔ ان پر نیب کے مقدمات اچانک ختم کردیئے گئے تھے۔ ویسے تو نیب کا بننتا ہی نہیں تھا کہ اتنے پرانے مقدمے دوبارہ کھولتے مگر کچھ نہ کچھ بتانا تو ہوتا ہے جتانا تو ہوتا ہے۔ جہانگیر ترین اور اس کے حواریوں کا ڈرامہ بھی ختم ہوگیا۔ ان کے مطالبات بھی مان لیے گئے۔ میرے جیسے شخص کو محظوظ ہونے کے لیے یا لطف اٹھانے کے لیے اس میں بہت سامان تھا۔ اداروں کی طرف سے یہ کہہ دینا کہ انہیں جہانگیر ترین اب مطلوب ہی نہیں کمال کی پیش رفت تھی۔ یہ بھی دلچسپ کہ حکومت نے انہیں کلین چٹ ہرگز نہیں دی۔ ہو سکتا ہے کہ اس چٹ پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا ہو۔ یہ بڑے لوگوں کے کیس اور بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔ کچھ میرے جیسے ناسمجھ شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی رہائی کے خلاف رٹ کردیتے ہیں مگر کسی کو کیا معلوم یہ گنجائش ان کا حق ہے۔ شہزاد احمد کا شعر: اپنا حق شہزاد چھینیں گے مانگیں گے نہیں رحم کی طالب نہیں بے چارگی جیسی بھی ہے