درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ویسے دردکا اشک بن جانا تو خوبصورت بات ہے کہ آنسو بھی ایک طرح کا اظہار ہے۔ اس پر بھی فوراً ایک شعر ذہن میں آ گیا: ہماری آنکھ میں آئے تھے دفعتاً آنسو ہوا تھاعشق تو اظہار بھی ضروری تھا بات کسی اور طرف نہ نکل جائے کہ میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ درد کو گالی نہیں بننا چاہیے‘ زیادہ تر شکوہ شکایت رہے تو درست ہے۔ ویسے یہ دردمحبت یا عشق میں ہے تو لذت آمیز ہے، مگر یہ درد اگر محرومی اور احساس کمتری کے بموجب ہے یا پھر حسد و کینہ کے باعث ہے تو بہت اذیت ناک ہے۔ مثبت انداز کا درد تو نعمت سے کم نہیں کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘ جس درد کا تذکرہ مجھے کرنا ہے وہ صرف پنجابی میں سمجھایا جا سکتا ہے۔ شاید آپ نے ہماری ریہتل میں ایک اظہار سماعت فرمایا ہے کہ ’’تینوں سول اٹھدا اے‘‘اس سول کو کون سمجھائے؟ یہ وہ تکلیف جو کسی کی عزت و اکرام کو دیکھ کر ایک حاسد کے دل میں اٹھتی ہے۔ اس بات کا خیال مجھے اس وقت آیا جب مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں ایک عالم دین مولانا طارق جمیل کا تمسخر اڑا رہا تھا اور اس کی ہرزہ سرائی پر کتنے باریش لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے: مجھے کیا ہے جو تونے تنگ آ کر چاک کر ڈالا ترا دامن تھا تیری جیب تھی تیرا گریباں تھا مولانا طارق جمیل کا کیاقصور؟ کیا یہ کہ انہوں نے عمران خان کے اس اظہار کو سراہا کہ اس نے ریاست مدینہ کی بات کی۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ خان صاحب کواپنے اس دعویٰ کو عملی طور پر ثابت کرنا ہے اور اس میں وہ ناکام نظر آتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود امید تو کی جا سکتی ہے۔ جب یہ بات مولانا طارق جمیل نے اٹھائی اور کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ عمران خاں پہلا لیڈر ہے جس نے ریاست مدینہ کی بات کی۔ دیکھیے پہلی بات یہ کہ ہمیں بدگمانی سے منع کیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ عمران نے یہ نعرہ انتخاب کے لئے نہیں بلکہ انتخاب جیتنے کے بعد لگایا اور پھر طارق جمیل نے خان کے عزائم کی تحسین کی اور یہی دین کی حکمت ہے کہ پیار محبت سے خیر کے کام میں معاونت کی جائے۔ اس کو اس کے وعدے اور دعوے کو بھولنے نہ دیا جائے۔ مجھے اپنے دوست عدیم ہاشمی کا شعر یاد آ گیا: اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا مولانا طارق جمیل صاحب نے وضاحت کی کہ انہیں عمران خان کی پرانی تصویریں اور اس کی لاابالی زندگی پرمشتمل چیزیں بھیجی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں تو خود وہ یعنی مولانا سنگر اور ڈانسر رہے کالج کا زمانہ رنگین شاموں اور چمکتی صبحوں پر مشتمل تھا۔ ہدایت کسی بھی وقت کسی کو بھی مل سکتی ہے۔ اگر آپ اقبال کی زندگی دیکھیں تو وہ بھی کہتے ہیں کہ وہ تو برہمنوں کی اولاد میں سے تھے پھر اللہ نے ان سے وہ کام لیاکہ بڑے بڑے مفسر قرآن کہنے پر مجبور ہو گئے کہ قرآن کو جیسے اقبال نے سمجھا وہ ان کے بس میں بھی نہیں تھا۔ میں کوئی عمران کو اقبال کے ساتھ نہیں ملا رہا۔ ٹھیک ہے وہ بھی برے اور ناکارہ لوگوں میں گھر گئے ہیں اور ان کو بھی اقتدار کی لالچ نے کمپرومائز کرنے پر مجبور کیا۔ مگر ان کے مسلمان اور عاشق رسولؐ ہونے میں مجھے تو کوئی شک نہیں۔ یہ جو یہودی ایجنٹ والی بات ہے یہ انداز تو مولانا مودودی جیسے سید زادے پر بھی آزمایا گیا۔ کیا اقبال پر کفر کے فتوے نہیں لگے۔ بڑے لوگوں کے مقام کو سمجھنے کے لئے بڑے لوگ درکار ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رضا خاں بریلوی کی وفات پر مولانا اشرف علی تھانوی نے دعا کروائی تو سب ششدر رہ گئے انہوں نے اپنے مریدین سے کہا آپ ان کے مرتبہ کو نہیں سمجھ سکتے۔ خیر بات سے بات نکل آئی ہے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ان مولانا نے جنہوں نے مولانا طارق جمیل پر کی نقل اتاری ہے انہوں نے اپنے آپ کو تو وہیں مجہول اور بے معنی ثابت کر دیا بلکہ انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے اچھے خاصے معتبر نظر آنے والے لوگوں کا پول بھی کھول دیا۔ وہ مولانا فضل الرحمن ہی سے کچھ سیکھ لیتے کہ ایک جگہ انہوں نے ایک نعرہ لگانے والے کو ڈانٹا کہ ہم گالی نہیں دیتے۔ مگر طارق جمیل صاحب کو تو مولانا فضل الرحمن بھی اہمیت نہیں دیتے کہ بقول ان کے زیر سایہ پچاس ہزار عالم دین ہیں۔ہم یہ بھی مان لیتے ہیں، آپ کے احتجاج کو بھی قبول کر لیتے ہیں اور آپ نے اپنے ڈسپلن اور امن پسندی کے باعث جو عزت اس وقت کمائی ہے سر آنکھوں پر۔ مگر دیکھنا تو یہ ہے کہ اس نازک وقت میں آپ امتحان میں فیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ آپ کے پلیٹ فارم سے نفرت انگیز تقریر، مولانا طارق جمیل کے چاہنے والے جو لاکھوں میں ہیں آپ کو کیا سمجھیں گے۔ میں نے تو مخالف مکتبہ فکر کے لوگوں کو بھی مولانا طارق جمیل صاحب کے لئے رطب اللسان پایا۔ پھر اس سے آگے جو شہروں کی شاہراہوں کو بند کرنے کی بات ہے اس سے خدا نہ کرے جو انارکی پھیلے گی، اس کا کیا بنے گا۔ میرا خیال ہے کہ مولانا بلنڈر کھیلنے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت کے تو جیسے اوسان خطا ہو گئے ہیں۔ وہ معاملات کو الجھائے چلی جا رہی ہے۔ انسانی ہمدردی کے تحت اگر انہوں نے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی تو یہ ان کا بڑا پن تھا، ویسے تو بانڈ بھر کر دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں صاحب کی جان سے زیادہ کچھ بھی قیمتی نہیں۔ بیچاری حکومت بھی کیا کرے کہ یہ نہیں کرتی تو ڈیل کا الزام۔ دوسری طرف زرداری کا معاملہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر انہیں بھی بیماری کی رعایت نہیں ملتی تو بلاول نے بھی مارچ کی دھمکی دے دی ہے۔ جناب سراج الحق بھی تو پیچھے نہیں رہیں گے کہ مہنگائی کا ایشو تو سب کا ہے۔ یہ اپنی جگہ درست ہے کہ حکومت پاکستان کا سافٹ امیج بنانے میں لگی ہوئی ہے کہ کرتار پور کی راہداری ہی نہیں‘ شاہ محمود قریشی سینکڑوں مندر بھی دریافت کر رہے ہیں جن کو رینوویٹ کروایا جائے گا۔ گویا ہمیں اقلیتوں کی فکر بھی ہے اور ہمسایوں کو خوش کرنے کا مسئلہ بھی۔ اس کے جواب میں بھارت کا قاتل مودی کیا کچھ کیے جا رہا ہے سب کے سامنے ہے۔ سب کے اپنے اپنے مفاد ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ چیلنجز میں حکومت کو سوچ سمجھ کر آگے چلنا چاہیے مہنگائی بھی تو صرف کہنے سے کم نہیں ہو گی۔ آپ کی بوکھلاہٹ اور کمزوری دشمنوں کو خو شہ دے رہی ہے۔ آپ کی مضبوطی صرف عوامی پذیرائی کے سوا کچھ نہیں۔ اس طرف توجہ دیں وگرنہ آپ کی جگہ کوئی بھی لے سکتا ہے۔