میں ٹیسٹ میچ کو دلچسپ مرحلے پر چھوڑ کر یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں۔کیا یہ کوئی صحت مند عمل ہے۔ملک میں ایسی حریفانہ سیاست کا چلن ہے کہ دل اچاٹ سا ہو گیا ہے۔یہ نہیں کہ ہم میں تحمل نہیں رہا‘ایسا تحمل جو اس وقت تک کرکٹ کے میدان میں ہمارے آج کے کپتان نے دکھایا ہے۔صبح شام بدلتی رہتی ہیں اس کی تقدیریں‘مگر اب تو کچھ نہ کچھ نقشہ واضح ہونے لگا ہے۔ویسے تو کہتے ہیں کہ سیاست میں آخری بال تک انتظار کرنا چاہیے اور یہ انتظار بہت کربناک ہے۔میں نے عرض کیا اب بہت کچھ واضح ہونے لگا ہے اور تو اور اتحادیوں تک نے کہنا شروع کر دیا کہ اتحادی جماعتوں کا سوفیصد جھکائو اپوزیشن کی طرف ہے۔اشاروں اشاروں میں انہوں نے اور بہت سی باتیں کی ہیں‘پشاور سے نہ چپلی کباب آ رہے ہیں نہ چرسی تکہ کی امید ہے۔ہماری سیاست میں اسلام آباد اور پنڈی کے استعارے ہوا کرتے تھے۔یہ پشاور ان میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔یہ سب کچھ افسوسناک ہے۔ ق لیگ تو بہت دنوں سے اپنے جھکائو کو ظاہر کر رہی ہے مگر اپنے کارڈ سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔کسی نے کہا کہ شاید اشارے کی منتظر ہے۔کوئی اور بولا نہیں ایسا نہیں ہے‘اشارہ ہو چکا ہے۔اسے فی الحال علی الاعلان نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے پینگیں بڑھانے کے اشارے دیے ہیں۔پیپلز پارٹی بھی مائل بہ کرم نظر آتی ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے بھی اشارے آ رہے ہیں۔ایک وفاقی وزیر نے اپنی پوری اکڑ فوں دکھاتے ہوئے یہ تک بھڑ بھڑا دیا کہ شاید تحریک عدم اعتماد کی نوبت نہ آئے۔اس کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ جام کمال کی طرح ہمارا کپتان آخری وقت تک ڈٹا رہنے کے بعد اچانک میدان چھوڑ دے گا۔وہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا وزیر اعظم نہیں بننا چاہے گا جس کے خلاف تحریک عدم اعتمادکامیاب ہوئی۔ ایسی بات ہے تو پھر یہ سب آنیاں جانیاں کیا ہیں۔یہ سب یہ دکھانے کے لئے ہے کہ میں عوام میں کتنی گہری جڑیں رکھتا ہوں اور اقتدار سے نکلنے کے بعد میں کیا کچھ کر سکتا ہوں۔اس میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔یا شاید یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اب بھی سنبھل جائو عوام مرے ساتھ ہیں۔اس تحریک عدم اعتماد کو واپس لو یا واپس کرائو۔میری اس آخری بات سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔لیکن مجھے اس کی باڈی لینگوئج وہی لگتی ہے جو شکست دیکھ کر جھلا گیا ہو اور ثابت کرنا چاہتا ہو کہ کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے‘اس سے مگر یہ بھی دکھائی دینے لگتا ہے کہ‘میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں‘میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں میں نے اصغر خاں کے ہجوم دیکھے ہیں‘ انہیں مقبولیت کے ہمالیہ پر پہنچے دیکھا ہے مگر جب وہ پاپولر مزاج کے خلاف غلطیوں پر اتر آئے اور جیل چلے گئے تو پھر جب واپس آئے تو ان کی مزید سیکولر غلطیوں کی وجہ سے کوئی انہیں پہچانتا بھی نہ تھا۔ اصل میں میرا مسئلہ بھی یہی ہے کہ میں بھی اپنے کارڈ سینے سے لگائے رکھنا چاہتا ہوں کہ عافیت اسی میں ہے۔پر کیا کروں جسے رکھنا ہے‘وہ نہیں اٹھ پا رہا۔آپ بتا رہے ہیں کہ آپ کو انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نکلوا رہی ہے۔ایسی بات ہے تو آپ کس برتے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔آپ کا خیال ہے اپنی مقبولیت پر‘کیونکہ قومی اسٹیبلشمنٹ کو تو آپ نے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔اس لئے کہ آپ کو علم ہے کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ جب خلاف ہوتی ہے تو وہ دیکھ لیتی ہے کہ قومی اسٹیبلشمنٹ کی آپ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔خدا آپ کی حفاظت فرمائے‘کوئی قوت آپ کے ساتھ نہیں۔آپ کو صرف اپنی مبینہ مقبولیت پر ناز ہے۔آپ کے وزیر کہتے ہیں ووٹ دینے والے کو لاکھوں کے مجمع سے گزر کر جانا ہو گا اور اگر اس کے خلاف ووٹ دیا تو بھی اسی مجمع سے گزر کر واپس جانا ہو گا اگر وزیروں کا ٹولہ ہی انارکی کی زبان استعمال کرنے لگے تو اس کا مطلب ہے آپ آئینی جنگ ہار چکے ہیں۔یہ کوئی خوشی اور اطمینان کی بات نہیں ہے۔اس لئے کہ آپ جن جن قوتوں کو برسر عمل لے آئے ہیں یہ بہت خطرناک صورت حال ہے۔ملک انشاء اللہ دوبارہ جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا مگر مسائل حل نہ ہو پائیں گے۔یہ مایوسی کی ایک نئی لہر کو جنم دے سکتا۔مسلم لیگ ن کے قائد تو یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ یہ ہمارے لئے خسارے کا سودا ہے مگر ملک کے مفاد میں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ خدا کرے یہ سب اندازے غلط ہوں مگر ملک کی مشکلات تو تحریک عدم اعتماد سے بچ جانے سے بھی دور نہیں ہوں گی۔آپ جب یہ فرماتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد دیکھنا میں اس اپوزیشن کے ساتھ کیا کروں گا تو گویا آپ اپنے آمرانہ رویوں کا اعلان کرتے ہیں۔یہ سول آمریت ہے جو معاف کرنافوجی آمریت سے بھی خطرناک ہے۔اس سول آمریت کو فاشزم یا فسطائیت کہتے ہیں۔ درست کہ ایسا آپ کر نہیں سکیں گے۔یہ خانہ جنگی کو دعوت دینے کے مترادف ہے یا مارشل لاء کو ‘اور تجزیہ نگار کہتے ہیں مارشل لاء اب اس ملک میں نہیں آئے گا۔تو پھر کیا ہو گا۔ سب سوال جواب طلب ہیں۔کسے مشورہ دیںآپ ہی بتائیے۔