یہ کوئی بہت عرصہ پرانی بات نہیں ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد واشنگٹن میں پاکستان کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ پاکستان میں اس انخلا کے بعد گرمجوشی کا مظاہرہ ہوا اور اس وقت کے وزیراعظم بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے تھے۔ ایک تقریب میں امریکہ اور اس کے اتحادی فوجی دستوں کے انخلا کو انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے سے تعبیر کیا۔ ظاہر ہے یہ طالبان کی فتح پر جشن منانے سے تعبیر کیا گیا۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے ابھی دو سال مکمل نہیں ہوئے ہیں اور پاکستان امریکہ کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون کی بحالی کے لئے کوششیں کر رہا ہے اور انسداد دہشت گردی کا محور افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپ ہیں۔پاکستان کا طالبان کے ساتھ رومانس ختم ہوا ہو یا نہیں لیکن ان کے رویے نے پاکستان کو نہ صرف اپنی اندرونی سلامتی کی پالیسی پر از سر نوع غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے بلکہ پرو طالبان پالیسی کے باعث اس کے عالمی وقار اور سفارت کاری کو جو نقصان پہنچا اس کے ازالے کے لئے کاوشیں شروع کر دی ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن کے اپنے آخری دورے میں عندیہ دیا تھا کہ پاکستان اور امریکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششوں کو مربوط بنانے کے امکانات تلاش کرنے کے لیے اگلے ماہ مذاکرات کریں گے۔ اسلام آباد سمجھتا ہے کہ انسداد دہشت گردی تعاون اقتصادی اور تزویراتی تعاون کے امکانات کو وسیع کر سکتا ہے۔ لیکن امریکہ بہت محتاط نظر آتا ہے کیونکہ اس نے نہ تو زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ تعاون سے انکار کیا ہے۔ امریکا نے پاکستان کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کو بحال کرنے میں سہولت فراہم کی ہے۔ اس نے گزشتہ ماہ جنیوا میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے بھی تعاون کا وعدہ کیا، جس سے پاکستان کو کانفرنس میں تقریباً 9 بلین ڈالر جمع کرنے میں مدد ملی۔ ممکن ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی حزیمت کو ابھی بھولا نہ ہو، لیکن اس نے پاکستان کے ساتھ باضابطہ دفاعی اور سفارتی چینلز فعال رکھے ہیں۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کے لیے زبانی طور پر اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ تاہم، وسیع تر تعاون کا امکان خطے کے جغرافیائی سیاسی تھیٹر اور دہشت گردی کے خطرے کی شدت پر منحصر ہے۔ امریکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے رویے پر بھی نظر رکھے ہوگا کہ وہ کس طرح طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف تعاون کرے گا۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کے حوالے سے پاکستان کا نقطہ نظر بھی واشنگٹن کے ممکنہ تعاون میں اہم کردار ادا کرے گا۔ جہاں تک انسداد دہشت گردی تعاون کے دائرہ کار کا تعلق ہے، امریکہ کا بنیادی مقصد اس خطے میں دہشت گردی کے پھیلنے پھولنے کے امکانات پر نظر رکھنا ہوگا، خصوصا وہ پہلے سے کمزور القاعدہ کو ختم کرنا چاہے گا۔ ٹی ٹی پی امریکی ریڈار پر کوئی خاص خطرہ نہیں ہے کیونکہ اس کی توجہ صرف پاکستان پر ہے۔ پاکستان کو امریکہ کو یہ باور کرانا ہو گا کہ ٹی ٹی پی القاعدہ کی طرح ایک طاقتور خطرہ ہے جتنا کہ اس کے اب بھی عالمی روابط یا عزائم ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں یہ نظریہ بھی موجود ہے کہ ٹی ٹی پی طالبان کی حکومت کے لیے ویسا ہی خطرہ بن سکتی ہے جیسا کہ القاعدہ نے 1990 کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کے لیے کیا تھا۔ پچھلی طالبان حکومت نے القاعدہ کے خلاف عدم تعاون کی قیمت چکائی تھی اور اس بار ٹی ٹی پی طالبان کے اعصاب کا امتحان لے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ طالبان کا ٹی ٹی پی سے مکمل طور پر رابطہ منقطع ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، جو پاکستان میں غصے میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ اگر فریقین دہشت گردی کے خلاف تعاون پر اتفاق کرتے ہیں تو اصل چیلنج اس تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ تعاون کو معلومات کے تبادلے تک ہی محدود رکھنا ہے تو یہ پہلے سے ہی بعض سطحوں پر ہو رہا ہے۔ کیا امریکہ ماضی کی طرح ٹی ٹی پی قیادت کو ڈرون کے ذریعے نشانہ بنانے میں مدد کرے گا؟ امریکہ کے ساتھ تکنیکی اور لاجسٹک تعاون بڑھانے کے راستے موجود ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان، طالبان حکومت سے کیسے نمٹے گا، جو پہلے ہی کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت میں پاکستان کی حمایت کے حوالے سے مشکوک ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بھی آپریشنل تعاون پاکستان کی داخلی سلامتی کے چیلنج اور سیاست کو بھی پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ وسیع انسداد دہشت گردی تعاون پاکستان کے لیے تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ واشنگٹن ڈی سی اور اسلام آباد کے بہت سے بااثر حلقوں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ اور دنیا جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاست کو زیادہ دیر تک معاشی بحران کا شکار نہیں رہنے دیں گے، خاص طور پر جب ریاست اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہو۔ ماہرین اکثر مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان امریکی ملٹی الائنمنٹ فریم ورک میں فٹ بیٹھتا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے جسے بعد میں جنوبی اور وسطی ایشیا میں اپنی شطرنج بورڈ کا انتظام کرتے ہوئے اعتماد کے ساتھ استعمال کر سکتا ہے۔ تاہم، اس طرح کی امید پرستی نے امریکی سلامتی کے جائزوں میں، خاص طور پر چین کے ساتھ اس کے تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے میں مدد نہیں کی۔ امریکی محکمہ دفاع کی آخری سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو چین کا واحد ہمہ موسمی سٹریٹجک پارٹنر قرار دیا گیا ہے، جسے چین فوجی لاجسٹک سہولت کے لیے ہر جگہ زیر غور رکھ سکتا ہے۔ علاقائی تزویراتی منظر نامے میں پاک چین سٹریٹجک تعاون مجبوری ہے اور ان کا تعاون بڑھے گا۔ تاہم، توازن برقرار رکھنا پاکستان کے لیے زیادہ مشکل ہو جائے گا کیونکہ امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی بڑھے گی، اور ایک مرحلہ آ سکتا ہے جہاں پاکستان کے پاس غیر جانبدار رہنے کا آپشن نہیں ہوگا۔ تاہم، یہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان غیر رسمی چینلز کی سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ اگر کشیدگی اس سطح پر پہنچ جائے جہاں رسمی سفارتی چینلز نا پید ہو جائیں۔ ایسی سفارتی طاقت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو معاشی بحالی کی ضرورت ہے جو کہ امریکا، چین اور خلیج کے دیگر دوست ممالک کی مدد سے ہی ممکن ہے۔ انسداد دہشت گردی کے تعاون کی اہمیت گزشتہ دہائی کے مقابلے مختلف ہے۔ پاکستان کو علاقائی سیاسی منظر نامے میں اپنی حیثت بڑھانے کے لیے ایک نئی حکمت عملی تلاش کرنا ہوگی۔ یہ حکمت عملی کیسی ہو، اس پر زیادہ غور نہیں ہوا ہے ، لیکن اقتصادی بحالی اور سیاسی استحکام ہی ایسے حساس معاملات پر سوچنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔