کراچی ( سٹاف رپورٹر) کونسل آف پاکستان نیوز پیپرایڈیٹرز (سی پی این ای ) کی جانب سے جاری پاکستان میڈیافریڈم رپورٹ 2019ء کے مطابق پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو سخت خطرات کا سامنا ہے ۔ گزشتہ سالوں کی طرح 2019 میں بھی پاکستانی میڈیا کیلئے سخت پابندیوں، سختیوں، قتل اور سنسرشپ جیسے مسائل کی شدت رہی۔صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ملک بھر میں سات صحافیوں کو قتل اور 15 سے زائد کو زخمی کر دیا گیا۔ اتوار کو جاری رپورٹ میں ملک بھر میں صحافت اور صحافیوں کو درپیش صورتحال اور مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ آئین کی شق 19 اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے تاہم 2019 کے دوران پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس رہی ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معلومات تک رسائی کا قانون بنانے میں خیبرپختونخوا پہلے نمبر پر رہا جس کے بعد پنجاب اور سندھ میں یہ قانون بنا لیکن بلوچستان میں معلومات تک عام شہریوں کی رسائی خواب ہی رہی ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں صحافتی خدمات کی ادائیگی کے دوران سات صحافیوں کو قتل کر دیا گیا جن میں عروج اقبال، مرزا وسیم بیگ، بلال خان، علی شیر راجپر اور ملک امان اللہ خان شامل تھے ۔مختلف حملوں میں 17سے زائد صحافی زخمی بھی ہوئے ۔سی پی این ای کے صدر عارف نظامی نے سفارشات پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صحافیوں کی حفاظت کیلئے وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی اقدامات کیے جائیں اور اس کیلئے مناسب قانون سازی کی جائے ۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی پراسیکیوٹرز بھی تعینات کیے جائیں۔ میڈیا ہائوسز اور صحافتی تنظیمیں اپنا ہمہ گیراور متفقہ ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر عمل کریں۔ میڈیا ہائوسز کی سطح پر سیفٹی پالیسی، سیفٹی پروٹوکول اور سالانہ سیفٹی آڈٹ کے رجحان کو بھی فروغ دیا جائے تاکہ صحافیوں، دیگر عملے اورمیڈیا اداروں کو درپیش ممکنہ خطرات کا پہلے سے اندازہ لگا کرروک تھام کی جا سکے ۔ صحافیوں کیخلاف انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت درج مقدمات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔