چائے کے رسیا، صرف ابوالکلام آزاد نہیں، مولانا ظفر علی خاں بھی تھے۔ بقول ان کے، چاے کا کپ، پینے کے لائق تب ہوتا ہے، جب وہ لب ریز ہو، لب سوز ہو اور لب دوز ہو! گویا بھرا ہوا ظرف، اٹھتی ہوئی بھاپ اور ہونٹوں کو مِلا دینے والی مٹھاس! چائے کے عادی کو اس کی طلب، واقعی عاجز کر دیتی ہے! مولانا کہتے ہیں… کہاں سے لائوں مضامین ِغیب کی سْرخی علی الصباح، اگر چائے کا غرارہ نہ ہو دوسری چیٹک، قوم کو جس نے مار رکھا ہے، تازہ اخبار ہے۔ اس کی بابت کہا گیا ہے۔ مجھے بھی دیجیے اخبار کا ورق کوئی مگر وہ، جس میں دوائوں کا اشتہار نہ ہو! دوائوں کے اشتہاروں کی شکایت، بے جا نہیں۔ نواب درگاہ قلی خاں کی "مرقع دہلی" میں آنکھوں دیکھا حال بیان ہوا ہے کہ دلی کے بازاروں میں، دو ڈھائی سو سال پہلے، یہ "نسخے" انہیں لٹکے دکھائی دیے۔ پاکستانیوںکی تیسری لَت، سیاسی معاملات میں دلچسپی ہے۔ سر ِدست ایک اجمالی جائزہ، سیاسی منظر نامے کا لینا ہے۔ غالباً اقبال نے کہا تھا کہ سرزند، از ِماضی ِتو حال ِتو خیزد، از حال ِتو، استقبال ِتو یعنی، ماضی سے حال کی توضیح اور حال سے مستقل کی تصویر کشی کی جا سکتی ہے! ہماری قوم، چونکہ جذباتی بہت ہے، دلائل اور حقائق، دونوں سے صرف ِنظر کر جاتی ہے۔ یہ حال، نوجوانوں کا ہی نہیں، اکثر بزرگوں کا بھی ہے! مثلاً، فوجی حکمرانوں کی خامیاں (اور خوبیاں(، مختلف ہیں۔ ایوب خان، اچھے فوجی نہیں تھے، مگر ان کا دور، معاشی ترقی کا دور تھا۔ یحییٰ خان، فوجی ماہر تھے، لیکن کاروبار ِحکومت کے معاملے میں ع این دفتر ِبے معنی، غرق ِمے ناب اولی ٰ پر عامل رہے۔ جنرل ضیاء الحق کو نہایت مطعون کیا جاتا ہے۔ تعصب دور رہے، تو بھٹو صاحب سے لے کر عمران خان تک، ضیاء الحق سے زیادہ زیرک اور سوجھ بوجھ رکھنے والا، کوئی دوسرا نہیں نظر آئے گا۔ ان کے برعکس، جنرل پرویز مشرف سے زیادہ خراب اور ناعاقبت اندیش حکمران، شاید ہی اَور ہوا ہو۔ سیاست کے کھلاڑیوں کا بھی تجزیہ، الگ الگ کیا جانا چاہیے۔ بھٹو صاحب میں بہت سے گْن تھے، مگر اکثر کی، ان کی دْختر پر چھْوٹ بھی نہیں پڑی۔ اسی طرح، وہ نہایت منتقم مزاج تھے۔ بینظیر کا معاملہ، البتہ اْلٹ تھا۔ کرپشن کا ذوالفقار علی بھٹو پر الزام تک نہیں لگا۔ پر بے نظیر بھٹو کے جلو میں زرداری صاحب، ایک چلتا پھرتا اشتہار تھے! مسلم لیگ کی بھی سْنیے۔ پینتیس برس پہلے، محمد خان جونیجو کا سا شریف النفس وزیر ِاعظم، اسی مسلم لیگ نے دیا تھا، جس پر، نواز شریف نے ایسا شب خون مارا کہ ملک پر بھی نو سال حاکم رہے۔ آخر، عوام کی بددلی نے "تبدیلی مارکہ" جماعت کو آگے بڑھایا ہے۔ ان سطور کے ناظر، گواہ ہیں کہ یہ خاکسار عمران خان کا نہ زیادہ ناقد رہا ہے اور نہ مداح! ہاں! تعریف اور تعریض میں آج تک، دس پانچ فقرے اگر نکلے بھی ہیں، تو وہ معروضی ہیں اور ان پر "یوٹرن" نہیں لیا گیا! ان کی "معاملہ فہمی" اور "مدبرانہ" صلاحیتوں کا ذکر، ظاہر ہے کبھی نہیں کیا گیا۔ یہ نکتہ البتہ کئی باربیان ہو چکا کہ ان کی ناکامی کی صورت میں، نئی قیادت سامنے آنی چاہیے۔ نہ یہ کہ لَو ایک دفعہ پھر آصف زرداری اور نواز شریف سے لگائی جائے! یہ بات صحیح ہے کہ معاملات کو سْدھارنے اور بگڑے ہوئوں کو سادھنے میں، کچھ وقت تو لگتا ہی ہے۔ لیکن اس نومولود کا کیا کیجیے، جو ایک سال بعد بھی، قلقاریوں سے آگے نہ بڑھے! اس حکومت کی مہربانی سے، یہ بات بھی پتا چلی کہ بے ایمان سے، کہیں کہیں، نالائق زیادہ مْضر نکلتا ہے! اس کی مثال یوں ہے کہ بے ایمان دکان دار، اکثر کم تولتا اور ملاوٹ کرتا ہے۔ سْوکھے دودھ میں، ممکن ہے کہ سفید سفوف مِلا کر بیچتا ہو۔ لیکن نالائق، ہو سکتا ہے کہ دودھ کے بجائے، اس کا ہم رنگ زہر تول دے! آپ کپڑے دھونے کا نیل، اس سے خریدنے جائیں اور وہ نیلے تھوتھے کا پْڑا باندھ دے! یہ نادر نکتہ، یہی حکومت سمجھاسکتی تھی! ع این کار از تو آید و مردان چنین کنند ٭٭٭٭٭ تصویریںہیں یا بْت؟ سخن فہمی کی کمی، جس کا رونا اگلے بھی رو گئے ہیں، اب بحرانی شکل اختیار کر گئی ہے! اس پر مستزاد، پارٹی بازی ہے! چند روز پہلے، ایک ادبی ادارے سے مرزا غالب اور فیض احمد فیض کی تصویریں ہٹا دی گئیں۔ اس پر انجمن ِطرف داران ِغالب اور پراپیگنڈا پارٹی برائے فیض نے بڑا فَیل مچایا! علامہ اقبال کی تصویر چونکہ باقی رکھی گئی، سو کچھ بچت ہو گئی! علامہ کو اردو میں، کم و بیش وہی اہمیت حاصل ہے، جو فارسی میں مولانا رومی کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فارسی کے باقی بڑے شاعروں کے جواب میں، اردو کن شاعروں کو پیش کرتی ہے؟ سعدی اور حافظ کے مقابل، کیا غالب ہو سکتے ہیں؟ جس شاعری(فارسی) پر غالب نازاں رہے اور جسے دیوان ِحافظ سے افضل کہتے تھے، اہل ِفارس نے اسے دوسرے درجے میں رکھا ہے! اور فیض صاحب؟ ان سے ثابت ہوا ہے کہ ادب میں بھی، پراپیگنڈے سے بڑھ کے کارگر، کوئی اَور چیز نہیں! اسی لیے، مقبولیت سے اوچھا اور کھوٹا سکّہ بھی کوئی دوسرا نہیں ہے! فیض صاحب اصلاً اور طبعاً، نظم کے شاعر ہیں۔ مگر ان کے ہمعصروں میں ہی مجید امجد اور منیر نیازی سمیت، کئی نظم گو ان سے بڑھے ہوئے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ جن صاحب نے یہ تصویریں ہٹائی ہیں، ادھورا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں خالی نشستوں کو پْر بھی کرنا تھا۔ اقبال کے پیش روئوں میں، میر اور اکبر کے نام، سامنے کے ہیں۔ متاخرین میں، نظم میں منیر نیازی اور غزل میں ظفر اقبال صاحب کے نام پیش کیے جا سکتے ہیں۔ غالب اور فیض کی تصویریں، اگر صرف تعصب کی وجہ سے ہٹائی گئی ہیں، تو اس کی شکایت بجا ہے۔ ورنہ ع غالب ِخستہ کے بغیر، کون سے کام بند ہیں؟