عمران خان کو فکر ہے کہ پانچ سال میں اگر وہ وعدے کے مطابق عوام کی حالت میں تبدیلی نہ لا سکے تو کس منہ سے ان کے سامنے دوبارہ انتخاب کے لئے جائیں گے۔ جمہوریت ایک نظریہ ہے جس میں عوام کی زندگی کو بہتر بنانا انہیں تعلیم ،صحت اور خصوصاً سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا بنیادی کام ہیں عمران خان کے بقول، جمہوریت کے نام پر حکومت حاصل کر کے پہلے حکمرانوں نے ملکی وسائل پر ڈاکہ ڈالا جو جمہوریت نہیں Kleptocracyہے۔ انکی فکر بجا اور جو وہ کاوشیں کر رہے ہیں ان پر بحث ہو سکتی ہے لیکن انکے طریقہ کار اور ٹیم کے انتخاب کے حوالے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔پارلیمنٹ فعال نہیں ہے اور اس سلسلہ میں حکومت کو زیادہ ذمہ دار ٹھہرا یا جا رہا ہے کہ وہ اسمبلی میں اپوزیشن جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ انکی کابینہ میں یا تو نا تجربہ کار ہیں یا سال ہا سال کے آزمودہ کار، جنہوں نے مختلف حکومتوں کا حصہ رہتے ہوئے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا کہ یہ گمان ہو کہ اس بار وہ کوئی کمال کر دیں گے۔عمران خان کی دلیل یہ ہے کہ اصل میں قائد ٹھیک ہونا چاہئے ٹیم آزمودہ کار ہو یا نا تجربہ کار، میرٹ پر عہدوں پر تقرریاں کر کے گورننس کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔عمران خان کا نظریہ شاید ٹھیک ہو اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہوتا رہا ہے یا اب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ بیل آسانی سے منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ شاید اسی لئے صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر اسکی تردید کی جارہی ہے ، اگرپارلیمنٹ کے حالات یہی رہے اور حکومت قانون سازی کے معاملات میں کامیاب نہ ہو پائی تو پھر صدارتی نظام پر ضرور غور ہو گا لیکن اسکو لانے کے لئے پھر پارلیمنٹ کی ضرورت ہو گی یا پھر ریفرنڈم کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ لیکن سر دست ایسی کو ئی کوشش ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ فی الحال اسی نظام کو پوری طرح فعال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایک دو سال بعد کیا ہوتا ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا بیکار ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ عمران خان بطور وزیر اعظم عوام کی حالت بہتر بنانے کے لئے فکرمندی رکھتے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ نہ صرف انکی فکر مندی برقرار رہے گی بلکہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے بر عکس واقعی جمہور کے لئے کام کرنے میں کامیاب ہوں گے۔انکو سب سے زیادہ مشکلات پارلیمنٹ کے اندر سے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے حکومت وقت جواب دہ ہوتی ہے اور یہ عوامی امنگوں کی ترجمان ہو نی چاہئیے۔ ہماری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ فوجی ادوار میں بھی ملک میں پارلیمنٹ موجود رہی ہے۔ اورمزید بد قسمتی یہ ہے کہ جب اپنی پارلیمنٹ کو سیاسی یا فوجی سربراہ کے نیچے کام کرتے دیکھتے ہیں تو انیس بیس کا ہی فرق نظر آتا ہے۔ حکومت بہت سی قانون سازی کا ارادہ رکھتی ہے، سستے اور فوری انصاف کا وعدہ ہر حکومت نے کیا ہے لیکن عملی اقدامات کی بات کریں توپی ٹی آئی بازی لے گئی ہے۔ دو روز قبل ،خواتین کے جائیداد میں حصے، طلاق کے معاملات، جانشینی سرٹیفکیٹ کا حصول، غریب آدمی کو مقدمات میں قانونی اور مالی مدد ، Whistle blowerکا قانون تا کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے عوامی مدد حاصل کی جا سکے اور سب سے بڑھکرزمین جائیداد کے مقدمات میں غیر ضروری تاخیر کے خاتمے جیسے قوانین پارلیمنٹ کے سامنے رکھے جا چکے ہیں اور حکومت اپوزیشن کو یہ چیلنج دے رہی ہے کہ اگر وہ واقعی عوام کے حالات بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ان قوانین کو بہتر بنانے اور پارلیمنٹ سے پاس کرانے میں آگے آئے۔ اپوزیشن کا اب تک جو رویہ رہا ہے اس سے تو بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ حکومت ان قوانین کو پاس کرانے میں قومی اسمبلی سے شاید کامیاب ہو جائے لیکن سینیٹ میں مشکلات ہونگی۔ اگرچہ شاہ محمود قریشی پر امید ہیں کہ وہ اپوزیشن کو سینیٹ میں راضی کر لینگے لیکن عمران خان اس خوش گمانی کا شکار نظر نہیں آتے۔ انکے خیال میں اپوزیشن کی قیادت کو جب تک کرپشن کے مقدمات پر حکومت ریلیف نہیں دے گی وہ کبھی نہیں مانیں گے اور جمہوریت کے خطرے میں ہونے کا راگ الاپتے رہیں گے۔ عمران خان کرپٹ عناصر پر ہتھ ہولا کرنے کو با لکل تیار نہیں بھلے اقتدار رہے نہ رہے۔ حال ہی میں ایک امید کی کرن نظر آئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمان میں قیادت کی ذمہ داریاں تبدیل کر دی گئی ہیں۔ شہباز شریف ملک سے باہر ہیں اور انہوں نے اپنے اٹارنی کو پاکستان میں عدالتوں میں انکی طرف سے مقدمات میں پیش ہونے کی اتھارٹی دیدی ہے۔ جس سے گمان کیا جا رہا ہے کہ وہ ملک واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی سے بھی انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میاں نواز شریف سات مئی کو پھر جیل چلے جائیں گے۔ پارٹی کی صدارت بھی شاہد خاقان عباسی کو سونپنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان تمام اقدامات کو حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اعتماد کی بحالی کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے ، شاہ محمود قریشی پر امید ہیں کہ وہ قانون سازی کے معاملات میں اپوزیشن کو راضی کر لیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی حد تک معاملات سلجھتے نظر آ رہے ہیں ، کیا پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی حکومت کوئی اس قسم کی اعتماد سازی کر پائے گی کہ وہ بھی پارلیمنٹ میں عوامی مفاد کی قانون سازی کی حد تک کم از کم ضرور مدد کرے۔ ایک اور اشارہ پارلیمنٹ میں بہتر ماحول ہونے کا یہ ہے کہ عمران خان نے جمعہ کو صحافیوں کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں اعلان کیا کہ وہ سوموار کو اسمبلی کے اجلاس میں حاضر ہونگے۔آثار تو اچھے دکھائی دیتے ہیں، دعا ہے کہ پارلیمنٹ عوامی نمائندگی کا نمونہ بن جائے نہ کہ سیاست کے گندے کپڑے دھونے والا چوک۔