پاکستان تحریک انصاف کو حکومت سنبھالے سولہ ماہ ہوگئے ، اس دوران پارلیمنٹ کی عدم فعالیت سب سے بڑا مسئلہ رہی۔ عوامی مسائل تو دور کی بات کوئی ڈھنگ کی بات بھی نہیںہو رہی تھی۔جیسے ہی اجلاس منعقد ہوتا تھا ایوان مچھلی بازار بن جاتا۔ الزامات اور جوابی الزامات، الٹے سیدھے ناموں سے ایکدوسرے کو پکارنے کا کام اور پھر سپیکر مجبوراً اجلاس برخواست کر کے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جان خلاصی کراتے۔لیکن بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے آرمی ایکٹ میں ترمیم جیسی قانون سازی کی ضرورت کی نشاندہی کی۔ جیسے ہی حکومت نے اس ترمیم کا ڈول ڈالا، پارلیمنٹ کاماحول ہی بدل کر رکھدیا۔پہلے یہ ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خوش اسلوبی اور بغیر کسی چوں چرا کے پاس ہوئی اور اسکے بعد حکومت اور اپوزیشن اگلے ہی روز مل بیٹھے اور قانون سازی کے حوالے سے قومی اسمبلی کے سپیکر کی صدارت میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں، جو اسی مقصد کے لئے بنائی گئی تھی،اس عمل کو تیز کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ حکومت عام آدمی کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے حوالے سے بہت سی قانون سازی کا ارادہ رکھتی تھی جس میں خواتین کے جائیداد میں حصے، طلاق کے معاملات، جانشینی سرٹیفکیٹ کا حصول، غریب آدمی کو مقدمات میں قانونی اور مالی مدد ، Whistle blower کا قانون تا کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے عوامی مدد حاصل کی جا سکے اور سب سے بڑھکرزمین جائیداد کے مقدمات میں غیر ضروری تاخیر کے خاتمے جیسے قوانین ۔ لیکن اپوزیشن پکڑائی ہی نہیں دے رہی تھی ۔ جمعہ کے روز کچھ ایسا ہوا کہ حکومت اور اپوزیشن نے دیکھتے ہی ان میں سے زیادہ تر قوانین کی منظوری دیدی جو مدت سے قومی اسمبلی کی دراز میں پڑے سڑ رہے تھے۔ان میں سب سے اہم اور تاریخی قانون، ’’زینب الرٹ بل‘‘ ہے ۔قصور میں ایک شقی القلب نے ننھی زینب کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اورپھر قتل کر دیا۔ اس ایک واقعے سے ملک کے اندر بچوں سے زیادتی کے حوالے سے پیدا ہونے والی حساسیت نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ پارلیمنٹ نے بھی اس معاملے پر فوری قدم اٹھاتے ہوئے قانون سازی کی ٹھانی لیکن حکومت اور اپوزیشن کی باہمی چپقلش تاخیر کا باعث بنی۔ بالآخر یہ بل پاس ہوگیا ہے، سینیٹ سے پاس ہونے ا ور صدر مملکت کی منظوری کے بعد اسکا اطلاق ہو جائے گا۔ اس قانون میں ہر ممکنہ پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایسے کسی واقعہ کی رپورٹ، اندراج مقدمہ، اسکی سرعت کے ساتھ تفتیش و تحقیق اور عدالتی کارروائی کے حوالے سے کم از کم وقت کا تعین کیا گیا ہے۔سزائوں کے تعین میں بھی کسی رو رعایت کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ مقدمے کی مقررہ وقت میں تفتیش مکمل نہ کرنے پر متعلقہ افسر بھی سزا وار ٹھہرایا گیا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اس معاملے میں متعلقہ ادارے وہ رویہ اختیار نہیں کریں گے جو وہ دوسرے معاملات میں قوانین کے اطلاق کے بارے میں رکھتے ہیں۔ بلکہ سب سے بڑا مسئلہ ہی اطلاق کا ہے ورنہ قوانین ہر قسم کے موجود ہیں، جنکا بر وقت اور درست اطلاق جرائم کی بیخ کنی میں بہت مدد گار ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن کا اب تک جو رویہ تھا اس سے تو بظاہر یہی دکھائی دیتا تھا کہ قومی اسمبلی میں حکومت اپنی اکثریت کے بل پر قوانین پاس کر بھی لے لیکن سینیٹ میں اقلیت میں ہونے کے ناطے اسے مشکلات ہونگی۔ اپوزیشن کے حالیہ رویّے سے امید بندھ چلی ہے کہ سینیٹ بھی ان قوانین پر مہر تصدیق ثبت کر دے گی۔ پارلیمنٹ کے سامنے حکومت وقت جواب دہ ہوتی ہے اور یہ عوامی امنگوں کی ترجمان ہو نی چاہئیے۔ ہماری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ فوجی ادوار میں بھی ملک میں پارلیمنٹ موجود رہی ہے۔ اورمزید بد قسمتی یہ ہے کہ جب اپنی پارلیمنٹ کو سیاسی یا فوجی سربراہ کے نیچے کام کرتے دیکھتے ہیں تو انیس بیس کا ہی فرق نظر آتا ہے۔جمعہ کے روز ہونے والی قانون سازی کے حوالے سے پیش رفت سے امید بندھی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے لاکھ ختلافات سہی لیکن عوامی دلچسپی کے معاملات پروہ کم از کم معاملہ فہمی سے کام لیں گے۔ پارلیمنٹ میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے حوالے سے کچھ روز قبل وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سینیٹ میں ایک بہت اہم خطاب کیا۔ اگرچہ انکی وجہ شہرت انکے اپوزیشن کے خلاف بیانات اور اختلاف رائے رکھنے والوں پر دست درازی ہے لیکن اس خطاب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انکے جذبہ کوکم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے نئے سال کے آغا ز پر تقریر کرتے ہوئے عوامی نمائندگان کو کہا کہ ہم نئے سال کا آغاز مختلف کریں،یا تو نیا باب لکھیں یا پرانی کتاب کو دوبارہ پڑھیں اور موقع ضائع کر دیں جو ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ ’’اگر ہم نے معاملات درست نہ کئے اور باہم دست و گریباں رہے تو مستقبل ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا‘‘۔دکھائی دے رہا تھا کہ وہ یہ باتیں دل سے کر رہے ہیں۔ اسی قسم کی تقریر محترمہ بینظیر بھٹو نے 1998 میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں کی تھی اور میاں نواز شریف کو متنبہ کیا تھا کہ دو تہائی اکثریت کے زعم میں ہر ادارے اور خاص طور پر اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا عمل بند کریں ورنہ اسکے بہت بھیانک نتائج نکلیں گے۔لیکن میاں صاحب اس وقت امیر المومنین بننے کی ترامیم آئین میں کرنے کے متمنی تھے۔ اسی زعم میں سپریم کورٹ پر حملہ کرایا گیا، چیف جسٹس سجاد علیشاہ کو انکے ہی ساتھی ججوں کے ذریعے فارغ کرا دیا گیا۔ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو استعفے پر مجبور کیا گیا اور با لآخر انہوں نے بم کو لات مار دی۔ جسکے بعد وہ خود، انکے ایما ء پر چیف جسٹس کو فارغ کرنے والے جج صاحبان بھی فارغ ہو گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی بات تو کسی نے نہیں سنی لیکن لگتا ہے کہ فواد چوہدری کی بات اثر کر رہی ہے۔ نئے سال میں پارلیمنٹ فعال ہو چکی ہے اور جمعہ کے روز ہونے والی دھڑا دھڑ قانون سازی اسکی گواہ ہے۔اسکی وجہ جو بھی رہی ہو لیکن یہی اصل راستہ ہے۔جو بھی اس ملک میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں انکہ پہلی ترجیح پارلیمنٹ کو ملک میں موجود کسی بھی ادارے سے زیادہ مضبوط اور موئثر بنانا ہونی چاہئیے۔ اسی میں عوام، حکمران، عوامی نمائندوں اور اداروں کا بھلا ہے۔