خدا کا شکر ہے کہ تین روز تک میدان جنگ کا منظر پیش کرنے والی قومی اسمبلی کا ماحول کچھ پرسکون ہوا۔ شدید عوامی ردعمل نے حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر اپنی اپنی غلطیاں سدھارنے کی راہ دکھائی ۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں معاہدہ طے پایا ہے کہ ایوان کی کارروائی کسی ہنگامہ آرائی کے بغیر آگے بڑھائی جائے گی۔ حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے 21قانونی بل جلد بازی میں منظور کرانے کی شکایت پر سپیکر اسد قیصر نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو ان مسودوں کا ازسر نو جائزہ لے گی۔ حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان تصفیے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے ہنگامہ اور گالم گلوچ کرنے والے7اراکین پر اسمبلی میں داخلے کی پابندی ختم کر دی۔ اپوزیشن نے جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی ہے۔ جموریت چلانے کا مرکزی نظام پارلیمنٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے ان کی ترجمانی کرتے ہوئے ریاستی معاملات میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ جن ممالک میں جمہوری استحکام ہے وہاں پارلیمنٹ کے ایوان کو صرف زبانی طور پر مقدس اور قابل احترام نہیں سمجھا جاتا بلکہ ایوان میں بیان کی گئی ہر بات کو ایک حلف کا درجہ حاصل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں منتخب نمائندے آج تک اپنے عمل سے پارلیمنٹ کی توقیر میں اضافہ نہیں کر سکے جس کی وجہ سے جمہوریت اور جمہوری ادارے ہمیشہ عدم استحکام سے دوچار رہتے ہیں۔ پاکستان میں 1958ء کے بعد چار مارشل لاء حکومتیں آئیں۔ جنرب ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف۔ ان تمام ادوار کو الزام دیا جاتا ہے کہ ان سے جمہوریت اور جمہوری ادارے کمزور ہوئے۔ دیکھا جائے تو جنرل پرویز مشرف کا دور پہلے فوجی سربراہوں سے مختلف رہا۔جنرل ضیاء الحق کے بعد 1989ء سے لے کر تاحال سینٹ اور قومی اسمبلی فعال رہے ہیں۔ یہ ایک طویل تسلسل ہے۔ لگ بھگ تیس برس کا دورانیہ جس میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ(ن)‘ ایم ایم اے اور تحریک انصاف اقتدار میں آئیں۔ باقی جماعتیں بھی کسی نہ کسی دور میں حکومت کی اتحادی بن کر اقتدار کا مزہ اٹھا چکی ہیں۔ گویا سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت ان ریاستی معاملات سے آگاہ ہے جو ماضی کی ناکامیوں اور مستقبل کے خطرے سے آگاہ کرتے ہیں۔ذمہ دار کردار ملنے پر ان جماعتوں کے اراکین کو سکیورٹی اور معاشی ماہرین بریفنگ دیتے رہے ہیں۔ ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز کے ادوار میں اراکین پارلیمنٹ کی تربیت کے متعدد پروگرام یورپی یونین کی معاونت سے شروع کئے گئے۔ یہ وہی دور ہے جب پلڈاٹ اور ٹرانسپرنسی جیسے اداروں نے پاکستان کے جمہوری نظام اور اس کی شفافیت پر رپورٹس شائع کرنا شروع کیں۔اچھی بات یہ ہے کہ بہت سی یونیورسٹیوں نے پاکستان میں جمہوری استحکام کے مختلف پہلوئوں پر پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیقی مقالے لکھوائے۔ گویا کوئی جمہوری نظام‘ پارلیمنٹ کے کردار‘ اراکین کی استعداد وغیرہ میں موجود نقائص جان کر اگر صورت حال کو بہتر بنانے کا خواہاں ہو تو کئی جگہ سے علمی اور تکنیکی مدد دستیاب ہو سکتی ہے‘ اس سے پارلیمنٹ کے ماحول میں ہنگامہ آرائی کے سدباب کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے۔ جولائی 2018ء میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی۔ عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد بطور وزیر اعظم تقریر شروع کی کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر مبنی اپوزیشن نے شور شرابا شروع کر دیا۔ اس دوران تینوں بڑی جماعتوں کے متعدد اراکین نے پارلیمنٹ کے فلور پر بدزبانی کا مظاہرہ کیا۔ کئی بار نوبت ہاتھا پائی تک آئی۔ بدزبانی اور ہنگامہ آرائی کرنے والے اراکین کو روکنے کے لئے سپیکر کے پاس محدود اختیارات ہیں۔ سپیکر اسد قیصر نے درست کہا کہ ان کے پاس مشتعل اور ہنگامہ آرائی پر بضد اراکین کو اخلاقی طور پر خاموش کرانے کا اختیار ہے‘ وہ انہیں اسمبلی سے باہر پھینکوانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اب جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے کی بات سننے پر آمادہ ہیں تو انہیں خاص صورت حال میں ایوان کا ماحول خراب کرنے والے اراکین کے خلاف کارروائی کے لئے سپیکر کو زیادہ با اختیار بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ جمہوریت تجربات سے پروان چڑھتی ہے۔ قومی اسمبلی میں مسلسل تنائو اور کشیدگی برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ جمہوریت کی بنیادی شرط ’’مکالمہ‘‘ کے خلاف ہے۔ اب یہ طے کرنا حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ مکالمے کے سب سے قابل احترام ایوان کا ماحول آئندہ کس طرح درست رکھا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے تعاون کا رویہ خوش آئند ہے۔ عوام یہی چاہتے ہیں کہ اپوزیشن حکومتی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے اور جہاں بہتر تجاویز دی جا سکتی ہیں وہاں اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ اب اگر بات گالم گلوچ اور ایک دوسرے پر حملے کرنے تک چلی جائے تو ساری فضا مکدر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران اپوزیشن کے تلخ اور کٹیلے لہجے پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے۔ تلخ گفتاری پر جوابی بدزبانی کو عوام مسترد کر رہے ہیں۔ پاکستان کو خارجہ پالیسی‘ معاشی بحالی‘ سماجی انصاف‘ جمہوری استحکام اور سیاسی تربیت کے حوالے سے متعدد منصوبوں پر کام کی ضرورت ہے۔ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ مفاہمت کی جو فضا برقرار رکھنے پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین سمجھوتہ ہوا ہے اسے برقرار رکھا جائے۔