پارلیمان کی کارکردگی تو ہمارے سامنے ہے۔ ا ب سوال یہ ہے کہ کیوں نہ اس کی نجکاری کر دی جائے؟ اگر آپ کے لبوں پر یہ سوال پڑھ کر مسکراہٹ دوڑ گئی ہے تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ میں یہ سوال ازرہ تفنن نہیں ، پوری معنویت کے ساتھ اٹھا رہا ہوں۔ تین حصوں میں ہم اس بحث کو سمیٹتے ہیں۔سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پارلیمان کی افادیت کیا ہوتی ہے اور کیا ہماری پارلیمان اپنی ذمہ داریوں کے باب میں سرخرو ہے۔ اس کے بعد ہم ملکی معاشی صورت حال کے پیش نظر اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اس ایوان پر اٹھنے والے اخراجات کا حجم کیا ہے اور کیا اس کارکردگی کے ساتھ یہ بوجھ اٹھانا چاہیے ۔تیسرے مرحلے میں ہم دیکھیں گے کہ ممکنہ نجکاری کے سیاسی ، سماجی اور معاشی فوائد کیا ہو سکتے ہیں۔ پارلیمان کی افادیت تو ظاہرہے کہ قانون سازی ہے۔ ہمارے ہاں عالم یہ ہے کہ قانون سازی کسی کی ترجیح ہی نہیں۔ کبھی یہ عالم ہوتا ہے کہ قانون سازی بذریعہ صدارتی آرڈی ننس کر لی جاتی ہے اور پارلیمان کو زحمت ہی کوئی نہیں دیتا اور کبھی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ قومی اسمبلی سے ایک دن میں 21 بل منظور ہو جاتے ہیں اور کسی کو کچھ علم نہیں ہوتا ہم نے کس چیز کی منظوری دی ہے۔ نہ کوئی بحث ہوتی ہے نہ کسی کااختلافی موقف سنا جاتا ہے۔ ایک اسمبلی کے پانچ سال کے دورانیے میں اگر 74 اجلاس ایسے ہوں جہاں حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم ہو تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پارلیمان اپنے کام میں کتنی سنجیدہ ہے۔ بار بار کورم ٹوٹ جاتے ہیں۔ سنجیدہ مسائل پر کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ گالم گلوچ اور غیر مہذب گفتگو کا آزار بھی اب اسے لاحق ہو چکاہے۔ اراکین اسمبلی کا انفرادی ضمیر یا شعور بھی کم ہی بروئے کار آتا ہے۔ ان کی افادیت یہ نہیں رہی کہ کسی معاملے پر غور و فکر کر کے رائے دے سکیں بلکہ ان کی افادیت صرف یہ ہے کہ قیادت جو حکم سنا دے یہ اس کے حق میں ووٹ دے آئیں۔ تو اگر فیصلے چند قائدین ہی نے کرنے ہیں اور ان کی حیثیت صرف یہ ہے ان فیصلوں کے حق میں ووٹ دے آئیں تو محض اس کام کے لیے ان پر اتنے بھاری اخراجات کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں نہ لیے گئے ووٹوں کی بنیاد پر طے کر لیا جائے کہ فلاں جماعت کے قائد محترم کی رائے کا مطلب اتنے ووٹ ہوں گے اور فلاں کی رائے اتنے وٹوں کے برابر ہو گی۔ محض رسمی کارروائی کے لیے اراکین کے ناز اور خرچے اٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہر رکن قومی اسمبلی بنیادی تنخواہ لیتا ہے۔ اس کے علاوہ بارہ ہزار سات سو روپے کا اعزازیہ لیتا ہے الائونس کی مد میں پانچ ہزار ہر رکن کو ملتے ہیں۔ ٹیلی فون الائونس کے نام پر ہر رکن کو دس ہزار ملتے ہیں۔ پندرہ ہزار کا ایڈ ہاک ریلیف یہ لیتے ہیں۔ آٹھ ہزار روپے ہر رکن کو آفس مینٹیننس الائونس کے نام پر ملتا ہے۔تین لاکھ کے سفری وائوچز دیے جاتے ہیں یا بانوے ہزار روپے کیش انہیں دیا جاتا ہے۔ بجٹ سیشن کی مراعات الگ ہیں۔ اجلاس کے لیے حلقہ انتخاب سے نزدیکی ایئر پورٹ سے اسلام آباد تک بزنس کلاس کے پچیس ریٹرن ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔کنوینس الائونس دیا جاتا ہے۔ ڈیلی الائونس کی مد میںہر رکن کو چار ہزار آٹھ سو روپے دیے جاتے ہیں۔پارلیمانی لاجز میں قریبا مفت میں بہترین رہائش کے باوجود ہائوسنگ الائونس یہ لیتے ہیں۔ موجودہ ا ور سابقہ تمام اراکین اور اہل خانہ کو گریڈ بائیس کے برابر میڈیکل کی سہولت تاحیات میسر ہے۔ اراکین کی اہلیہ اور شوہر کو تاحیات بلیو پاسپورٹ دیا جاتا ہے۔ ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ قریبا پانچ کروڑ ہے۔ اور اس سب کے بعد قوم کو کیا ملتا ہے؟ غلیظ گالیاں اور دشنام۔ کیا یہی کچھ سننے کے لیے اتنا خرچ کرنے کی کوئی ضرورت ہے؟ اس کارکردگی کے ساتھ اتنے اخراجات اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ شکست کے خوف سے چار چار پانچ پانچ حلقوں سے ا لیکشن لڑتے ہیں اور ایک سیٹ رکھ کر باقی چھوڑ دیتے ہیں تو قومی خزانے سے یہاں دوبارہ خرچ کر کے ضمنی انتخابات ہوتا ہے۔ یہ ایم این اے ہوتے ہوئے سینیٹر بننا چاہیں تو ان کی خواہش کی تکمیل میں ریاست قومی خزانے سے دوبارہ الیکشن کراتی ہے اور پورا حلقہ ایک اذیت سے گزرتا ہے۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا۔ان پر کوئی جرمانہ عائد نہیں ہوتا۔ ان کے مزے ہیں۔ ایووان میں آکر غیر سنجیدگی سے فقرے اچھالنا ، گالیاں دینا ، یا زیادہ سے زیادہ قیادت کے فیصلوں کے حق میں ووٹ دے ڈالنا کیا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ غریب قوم اتنے اخراجات برداشت کرے؟ نظام تعزیر تو ہمارا آج بھی ڈیڑھ سو سال پرانے قانون پر کھڑا ہے۔ پولیس 1861 کی ہے اور فوجداری قانون 1860 کا ۔ قانون سازوں نے پارلیمان میں اب تک کیا ہی کیا ہے؟ اب آئیے اسی سوال کی جانب کہ اس واجبی کی کارکردگی پر کیا قومی خزانہ یوں لٹانے کا کوئی جواز ہے؟ عام آدمی پر تو ایوان کے دروازے بند ہیں۔ ایک مخصوص طبقہ ہی ایوان تک پہنچ سکتا ہے۔ تو پھر غریب قوم یہ بوجھ کیوں اٹھائے۔ کیوں نہ پارلیمان کی نجکاری کر دی جائے۔ شناخت کے بحران سے دوچار اوورسیز پاکستانی اور مقامی اہل ثروت سے کہا جائے صوبائی اسمبلی کی نشست کا یہ ریٹ ہے ، قومی اسمبلی کی نشست اتنے میں دستیاب ہے اور سینٹر بننے کی قیمت یہ ہے۔ جوڑ توڑ کرنے میں اور ووٹ خریدنے میں پیسہ برباد کرنے کی بجائے سیدھا قومی خزانے میں پیسہ جمع کرائیے۔ آپ سے ذریعہ آمدن بھی نہیں پوچھا جائے گا۔ اس کے بعد کابینہ کا مرحلہ آئے گا۔ وہاں بھی یہی فارمولا لاگو کیا جائے۔ ریلوے کے وزیر کو تو اب بھی معلوم نہیں ملک میں کتنی ٹرینیں چلتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ نئے نظام میں وزیر کو یہ بھی علم نہیں ہو گا کہ ٹرین چلتی ہے یا ہوا میں اڑتی ہے۔لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اب کون سا ’’ رائٹ مین فار دی رائٹ جاب‘‘ کے تحت وزارتیں دی جاتی ہیں۔ بس برائے وزن بیت ہی عہدے عطا ہوتے ہیں۔ نئے بند و بست میں کم ا زکم یہ تو ہو گا کہ قومی خزانے میں بھی کچھ رقم آ جائے گی۔ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے پارلیمان کا دورانیہ مختصر کیا جا سکتا ہے ۔ تا کہ ہر دو سال بعد معاشی امکانات کی ایک نئی دنیا آباد ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پارلیمان کا ممبر بن کرملک اور قوم کی خدمت کرنے کا موقع ملے۔ یہ لوگ تنخواہیں بھی نہیں لیں گے۔ مراعات کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ یہ سیلف فائنانس سکول آف گورننس ہو گا۔یعنی ہر رو ز جب اجلاس ہوا کرے گا تو قریبا چھ کروڑ کی بچت الگ سے ہوا کرے گی۔ معاشی بحران سے نجات کا یہ وہ راستہ ہے جو آپ کو اخلااقی بحران سے بھی نجات دلا سکتا ہے۔ ماننی تو آپ نے نہیں ہے لیکن اچھا مشورہ دینے میں کیا حرج ہوتا ہے۔