وزیر اعظم عمران خان نے صنعتی شعبے کے لئے اہم پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے یکم نومبر 2020ء سے چھوٹی صنعتوں کو اضافی بجلی آدھی قیمت پر دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کورونا کی نئی لہر کے پیش نظر خدشات کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ کاروبار اور صنعتیں بند نہیں کی جائیں گی۔ کسی بھی ملک کی معیشت میں اس کی برآمدات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باعث خام مال کی پیداوار میں تو کسی حد تک خود کفیل رہا مگر جدید ٹیکنالوجی کے فقدان اور فنشنگ گڈز بنانے کی صلاحیت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ تجارتی خسارے کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان نے ٹیکسٹائل سیکٹر میں جو ترقی کی تھی وہ بھی ملک میں توانائی کے بحران کی وجہ سے مفلوج ہو کر رہ گئی۔ملک میں 12سے 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے فیکٹریاں بند ہونا شروع ہوئیں تو ملکی برآمدات ہی صرف کم ہونا شروع نہیں ہوئیں بلکہ پاکستانی سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ دیگر ممالک بالخصوص بنگلہ دیش منتقل کرنا شروع کر دیا۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے توانائی کا بحران حل کرنے کے لئے جو بجلی گھر لگائے ان سے مہنگی بجلی خریدنے کی وجہ سے معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہ ہو سکے۔ اسی طرح مسلم لیگ کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کوئلے سے بجلی بنانے والے کارخانے لگا کر اور قطر سے ایل این جی درآمدات کر کے کسی حد تک توانائی کا بحران تو حل کر دیا مگر بجلی اور گیس کے مہنگے داموں خریدنے کی وجہ سے انڈسٹری عالمی مسابقتی صلاحیت سے محروم ہو گئی اور معیشت بہتر ہونے کے بجائے تنزلی کا شکار ہو گئی۔12اکبوتر 2013ء کو یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا سٹیٹس ملنے سے پاکستانی معیشت کو وقتی طور پر کچھ سہارا ضرور ملا اور ملکی برآمدات میں 20فیصد اضافہ بھی ہوا مگر بجلی اور گیس کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافے نے جی ایس پی پلس سٹیٹس کی صورت میں سہولت کو بھی زائل کر دیا۔ مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے پاکستانی برآمد کنندگان کے لئے عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنا ممکن نہ رہا اور پاکستانی برآمدات میں کمی ہونا شروع ہوئی اور ملکی تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہو گیا۔2013-14ء میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 7.743ملین ڈالر تھا جومسلم لیگ ن کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے 2018ء تک 30سے 35بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ دوسری طرف مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے پاکستان جی ایس پی پلس سٹیٹس کا بھی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ کر سکا۔ یہ مہنگی بجلی اور گیس کا ہی نتیجہ تھا کہ پاکستان کی برآمدات 2015ء کی نسبت 2016ء میں بڑھنے کی بجائے 11.17فیصد کم ہو گئیں۔2017ء میں 2016ء کی نسبت 1.32فیصد کمی واقع ہوئی۔2018ء میں وقتی طور پر برآمدات میں 12.22فیصد اضافہ ہوا جس میں 2019ء میں ایک بار پھر 0.25فیصد کمی ہوئی۔2019-20ء میں کورونا کی وبا نے رہی سہی کسر نکال دی مگر حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے 2020-21ء میں پاکستان کی طویل تاریخ میں تجارتی خسارہ ضرور کم ہوا اور سٹیٹ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2020ء میں پاکستان کا تجارتی خسارہ ختم ہو کر سرپلس میں چلا گیا ہے جس سے ملکی معیشت میں قدرے بہتری ضرور آئی ہے مگر اس بہتری کی وجہ بھی پاکستان کی برآمدات میں اضافہ نہیں بلکہ درآمدات میں کمی بتائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملکی معیشت کے پائیدار استحکام کے لئے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے جو ملکی انڈسٹری کو سہارا دیے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان کی 23ارب ڈالر کی برآمدات میں 55فیصد حصہ ٹیکسٹائل سیکٹر کا رہا ہے مگر مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے پاکستان کے 20فیصد ٹیکسٹائل سیکٹر کے سرمایہ کار اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں حالانکہ بنگلہ دیش میں کپاس پیدا نہیں ہوتی اور بنگلہ دیش کو خام مال پاکستان بھارت اور دیگر ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے مگر کیونکہ بنگلہ دیش حکومت اپنے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی اور گیس پاکستان کی نسبت آدھی قیمت پر بلا تعطل فراہم کرتا ہے اس لیے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے باعث کشش ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کا انڈسٹریل سیکٹر کو اضافی بجلی پر 50فیصد رعایت دیناخوش آئند فیصلہ ہے۔انڈسٹری کو سستی بجلی ملنے سے نہ صرف برآمدکنندگان کو بہتر مسابقتی ماحول میسر آئے گا بلکہ صنعتی پہیہ چلنے سے ملک سے بے روزگاری کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بجلی کے ساتھ انڈسٹری کو گیس کی ارزاں نرخوں فراہمی کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی امپورٹ پر ٹیکس چھوٹ بھی دے تاکہ پاکستان کی صنعتوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیداوار میں اضافے سے سستی مصنوعات بنانا ممکن ہو سکے۔ ایسا کرنے سے ہی ملک میں بے روزگاری کا خاتمہ اور ملکی معیشت کو پائیدار استحکام نصیب ہو سکتا ہے۔ معاشی بہتری کے لئے بر وقت اور برق رفتار فیصلے اہم کردار ادا کرتے ہیں ،صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کرنے کا فیصلہ کرنے میں برسوں بیت گئے ،امید ہے کہ حکومت پیداواری عمل کو غیر ضروری بوجھ سے آزاد کرنے کے لئے گورننس کے مسائل پر جلد قابو پا لے گی۔بہت سے مسائل ہیں جو ذرا سی توجہ سے حل کئے جا سکتے ہیں لیکن دفتری نظام اور دانشمندی سے عاری اہلکار فایلوں کا بوجھ بڑھاتے رہتے ہیں۔صنعتوں کے لئے سستی بجلی سے پیداواری عمل بحال ہو گا، روزگار میں اضافہ ہو گا ،برآمدات بڑھیں گی اور زرمبادلہ ملے گا۔اتنے سارے معاملات ایک فیصلے سے جڑے ہوئے ہوں تو تاخیر کا سسب بننے والوں کو ضرور بے نقاب کیا جانا چاہئے۔