کراچی میں طیارہ حادثے کے بعد حکومت نے سرکاری اور نجی ایئرلائنز کے پائلٹ سمیت تمام دیگر عملے کی تعلیم و قابلیت اور ان کے لائسنس سے متعلق از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت سول ایوی ایشن اتھارٹی کے انتظامی امور میں مسائل کی نشاندہی ہوئی تھی۔ فرانزک تحقیقات میں نشاندہی کے بعد تمام مشتبہ پائلٹس کو 25 جون سے گراؤنڈ کردیا گیا اور انتظامی سطح پر فرائض انجام دینے والے 5 افسران کو معطل کرکے ان کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی۔ وزارت ہوا بازی کی جانب سے پائلٹس کے جعلی لائسنس کے معاملے کو غلط طریقے سے ٹیک اپ کرنے کے معاملہ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نے پائلٹس کے ایشو پر دوبارہ رپورٹ طلب کرلی۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ معاملہ بہتر طریقے سے ہینڈل کیا جاسکتا تھاجبکہ اسد عمر نے کہا کہ پائلٹس کی اہلیت اور ڈگریوں کا معاملہ حساس ہے اسے فہم و فراست سے حل کرنے کی ضرورت تھی تاہم اجلاس میں وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کابینہ کے ارکان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گراؤنڈ کئے گئے پائلٹس کے علاوہ تمام ایئر لائن بشمول قومی اور سرکاری کے پلائٹس بھرپور قابلیت اور صلاحیت کے حامل ہیں اور وہ اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ حادثے کی پیش کی گئی رپورٹ سے یوں معلوم ہوتا ہے اتنے بڑے ادارے میں کوئی کام قاعدے اور ضابطے کے تحت نہیں ہو رہا۔ جعلی ڈگریوں کے ذریعے اہل افراد کا حق مارنے والے ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ بددیانت ہے۔ جائز ناجائز ذرائع سے جمع دولت کے بل بوتے پر بغیر امتحان دیئے بغیر ضروری تربیت کے ڈگریاں اور لائسنس بنوا لیتا ہے پھر سیاسی طاقت کے زور پر اعلیٰ ملازمتوں پر قابض ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران انکشاف کیا کہ ان پرطیارہ حادثہ رپورٹ پبلک نہ کرنے کیلئے دباؤ تھا۔ کہا جا رہا تھاکہ ایسا کرنے سے ہماری ایئر لائن کی بدنامی ہوگی ۔ معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ مگر انہوں نے نہ صرف رپورٹ کو عام کیا بلکہ پی آئی اے کے پائلٹس کی ڈگری اور لائسنس کا بھی آڈٹ کرنے کا حکم دیا۔ وزیر اعظم کی مافیا کے خلاف لڑائی کی یہ ایک واضح مثال ہے جس میں انہوں نے مالی مفاد کو پس پشت ڈال کر میرٹ اور انسانی جانوں کو مقدم رکھا اور جعل سازوں اور مافیا کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ تفتیش کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں کام کرنے والے آٹھ سو ساٹھ پائلٹس میں سے دو سو ساٹھ سے زیادہ پائلٹس کو جو حکام نے لائسنس جاری کیے ہیں وہ دھوکہ دہی کے ذریعے حاصل کیے گئے ہیں۔جعلی لائسنس صرف پی آئی اے کا ہی نہیں تمام ایئرلائنز کا مسئلہ بن گیا ہے۔ 262 پائلٹس جن کی نشاندہی کی گئی وہ پی آئی اے کے علاوہ دیگر ملکی و غیر ملکی فضائی کمپنیوں میں جہاز اڑا رہے ہیں۔ان معلومات کی بنیاد پر یورپین یونین ا ئیر سیفٹی ایجنسی کو پاکستانی پائلٹس کے لائسنسز کی درستگی کے بارے میں تشویش ہے۔ یورپین یونین ائیر سیفٹی ایجنسی کی جانب سے یورپین ممالک میں پی آئی اے کی فلائٹس بند کرنے کا فیصلہ پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر مشکوک لائسنس رکھنے والے پائلٹوں کو گراؤنڈ کرنے کے بعد کیا گیا ۔ تاہم اب حکومتی کاوشیں رنگ لے آئی ہیں اور سیکٹری خارجہ کی جانب سے ہنگامی طور پر تمام یورپین ممالک کے سفیروں سے رابطہ کیا گیاجس کے بعدیورپین یونین نے پی آئی اے کو تین جولائی تک فضائی آپریشن جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ یورپین یونین ائیر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کی یورپین ممالک کیلئے یکم جولائی سے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو 6 ماہ کیلئے معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پی آئی اے نے یورپ کی تمام پروازیں عارضی طور پر منسوخ کر دیں تھیں۔ یورپی یونین ایجنسی کو ہمارے اس اقدام کو سراہنا چاہیے کہ ہم نے مسافروں کی جانوں کو مقدم رکھا اور ایسے خطرناک فیصلے کیے جس سے ہمیں مالی طورپر بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ مگر اب ایک دفعہ یہ فیصلہ کر لیا ہے تو دیگر ممالک بھی ہمارے ساتھ اس پروگرام میں شامل ہو کر اپنے ہاں بھی پائلٹس اور دیگر تیکنیکی عملہ کی اہلیت کو جانچیں۔ کیونکہ فضائی حادثے صرف یہاں ہی نہیں بلکہ ہر ملک میں ہوتے رہتے ہیں جن کی رپورٹ میں بعض اوقات فضائی عملہ ، پائلٹ اور زمینی عملہ کی کوتاہی سامنے آتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کی اہلیت کو چیک کیا جائے۔ ترجمان پی آئی اے کا کہنا ہے کہ جعلی لائسنسوں کی نشاندہی پی آئی اے انتظامیہ نے خود نومبر 2018ء میں پنجگور حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد کی۔پی آئی اے کی ہی ایما پر حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس نے فورنزک آڈٹ کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے اپنی سفارشات مرتب کیں۔ پی آئی اے نے اس عمل کی مسلسل پیروی کی تا کہ رپورٹ جلد ازجلد منظر عام پر آسکے اورفلائٹ سیفٹی پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکے۔ پی آئی اے نے مشتبہ لائسنس والے تمام پائلٹس کو فی الفور گراؤنڈ کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں دیگر ایئرلائنز میں جہاں پاکستانی پائلٹ کام کر رہے تھے، وہاں ان کوگراؤنڈ کردیا گیاہے۔پائلٹس گراؤنڈ ہونے سے فلائیٹ آپریشن متاثر تو ہو گا مگر مسافروں کی حفاظت کاروباری مفادات سے مقدم ہے۔ طیارہ حادثہ کی رپورٹ میں جن غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ان کا سدباب ضروری ہے تاکہ مزید انسانی جانیں ضائع نہ ہو لیکن پی آئی اے کو بچانے کیلئے ضروری ہے کہ ادارے میں انتظامی سطح پر سخت فیصلے کئے جائیں۔ جو لوگ اصلاحات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کریں ان کے کوائف کی پڑتال کی جائے اور اس سلسلے میں کسی طرح کی مصلحت کو قبول نہ کیا جائے۔حکومت اگر پی آئی اے کو پائوں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے تو اسے بلاتفریق اور بغیر کسی سیاسی دبائوکے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔