مَیں جو دوپہر ایک بجے سے سویا ہواہوتا تھا، ماں ساڑھے چار سے پانچ کے بیچ جگادیتی۔مَیں چارپائی سے اُٹھ کر غسل خانہ تک جانے میں ذرا بھی دیر نہ کرتا، نہانے میں بھی زیادہ وقت نہ لگاتا،نہا چکتاتو اُس چارپائی پر جا بیٹھتا،جس کو ماں نے کمرے کی دیوار کی چھائوں میں رکھا ہواہوتا، جہاں پہلے ہی میرا باپ بیٹھا ہوتا۔ماں مجھے گلاس پانی کا دیتی،ماں کو میری اس عادت کی بابت بہ خوبی معلوم تھا کہ نہانے کے بعد گلاس پانی کا پیتا ہوں۔مَیں پانی پی کر خالی گلاس واپس کرنے کی بجائے ،قریبی دُکان پر جانے کے لیے چارپائی کو چھوڑ دیتا۔دودھ سے بھرا گلاس دُکان سے خرید کر ،واپس آتا تو ماں دیوار کی چھائوں میں تین اینٹوں کے عارضی چولہے پر کیتلی رکھ چکی ہوتی۔لکڑیوں کی آگ پر رکھی کیتلی میں پانی اُبل رہا ہوتا اور پتی کا رنگ پانی کو سیاہ مائل کر چکا ہوتا،ماں گلاس لے کر دودھ ڈال دیتی۔مَیں چارپائی کی پائنتی کی اُور ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ جاتا،پیچھے دیوار کی تپش محسوس ہو ر ہی ہوتی، اگرچہ کافی دیر سے یہ سائے کے زیرِ اثر آچکی ہوتی ،مگر سارادِن دھوپ کے سامنے سینہ تانے کھڑی رہتی ،تھک ہار کر سورج ،اس کے اُوپر سے گزرکر دوسری طرف چلا تو جاتا،مگر زیادہ وقت دھوپ میں رہنے کی وجہ سے اُس کا اپنا سایہ پورا طرح ٹھنڈا نہ کر پایا ہوتا۔ ماں کی عادت تھی کہ چائے میں نمک ڈالتی تھی۔اگرچہ اس کی مقدار بہت معمولی ہوتی ،مگر چائے قدرے نمکین ذائقہ دیتی۔چائے پی چکنے کے تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوتی اور تین چار میری عمر کے لڑکوں کی آوازیں بھی آرہی ہوتیں،مَیں باہر نکل جاتا،یہ کرکٹ کھیلنے کا وقت ہوتا،مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ محلے کے کرکٹ میدان کی جانب چلاجاتا۔شام کو جب گھر لوٹتا تو اذانیں آرہی ہوتیں،میرا باپ مسجد جا چکا ہوتااور ماں کھانا بنارہی ہوتی۔عمومی طورپر تنور پر روٹیاں لگائی جارہی ہوتیں۔مَیں منہ ہاتھ دھوتا،اسی دوران ہم سب بہن بھائی باتیں کررہے ہوتے کہ باپ نماز پڑھ کر آجاتا،ساتھ ہی کھانا لگ جاتا،کھانا کیا لگتا،ہر فرد چنگیر میں روٹی اور پلیٹ میں سالن لے کر اپنی اپنی چارپائی پر جا کر بیٹھ جاتا،البتہ لسی کی بڑی سی بالٹی ایک طرف کمرے کے دروازے کے ساتھ پڑی ہوتی، یہ دودھ والی نمکین لسی ہوتی۔ کھانا کھاتے ساتھ ہی رات اُتر پڑتی،یوں محسوس پڑتا کہ وہ ہمارا کھانا کھانے کا انتظارہی کھینچ رہی ہوتی۔یہ گرمیوں کے دِنوں کا ماجرا ہے۔گرمیوں کے دِنوں میں تھل کے باسیوں کی صبحیں جلد پھوٹتی تھیں،صبح سویرے تیزی سے کام نمٹا دیے جاتے،حتیٰ کہ دوپہر کا کھانا بھی دس بجے کے قریب تیار کر لیا جاتااور جیسے ہی سورج آگ اُگلنا شروع کرتا ،سب لوگ اپنے اپنے کام کاج کر کے پیڑوں کی چھائوں یا کمروں میں گھس جاتے اور پھر چار بجے کے آس پاس ہلچل سی محسوس ہونا شروع ہوجاتی۔ یہ ایک گرم دِن ہے۔اب تھل کے باسیوں کے معمولات اگرچہ بدل چکے ہیں ،مگر سورج پہلے کی طرح شدید گرم ہی رہتا ہے۔آج تو صبح سویرے ہی سے یوں محسوس پڑرہا ہے کہ جیسے یہ لوہاروں کی بستی سے پھوٹا ہو،غصے سے تپا ہوا اور بپھرا ہوا۔قبرستان سنسان پڑا ہے۔کچی پکی قبروں کے آس پاس کی گھاس سوکھ کر کانٹا ہوچکی ہے۔جھاڑیاں مُرجھا کر زمین پر گری پڑی ہیں ، درختوں کی چھائوں اپنی ٹھنڈک کھو چکی ہے۔ پیڑوں کی شاخیں لٹکی پڑی ہیں اور پتے سمٹے سمٹے ہیں۔قبرستان کے بیچوں بیچوں چھوٹا سادربار ہے ،جس کو سامنے سے پیڑوں نے گھیرا ہوا ہے ، پیڑوں کے نیچے نلکا ہے ،جس کے نیچے کی جگہ گیلی ہے۔ پرندے آتے رہتے ہیں اورپانی پیتے رہتے ہیں ۔یہ وہی قبرستان ہے ،جہاں ماں کی قبر ہے۔مَیں ماں کی قبر کو پختہ کروانے کے لیے یہاں پہنچا تھا۔ایک مستری اور دومزدور کام کررہے تھے۔مستری کا خیال تھا کہ ایک بجے تک قبر پختہ ہوجائے گی اور کام ختم ہوجائے گا۔مجھے اسی طرح کے گرم دِن کا انتظار تھا۔اس دِن کا انتخاب سوچ سمجھ کر اور اپنی خواہش کے مطابق کیا تھا۔گرمیوں کے دِن اور پھر شام پانچ بجے کی نمکین چائے ،دیوار کے ساتھ پڑی چارپائی ،چھائوں میں چارپائی سے مناسب فاصلے سے تین اینٹوں کا بنا ہوا عارضی چولہا، چولہے پر رکھی کیتلی ،کیتلی میں اُبلتا پانی ،پیالوں میں چائے۔گرمیوں کے دِنوں کا یہ ہر روز کا منظر میرے اندر ٹھہرساگیاتھا۔مَیں اپنے اندر ٹھہرے دِن کی یاد منانا چاہتا تھا۔مستری کا اندازہ دُرست نہ نکلا،گرمی نے مسلسل کام نہ کرنے دیا،مستری اور مزدور وقفے وقفے سے چھائوں میں نلکے کے پاس آبیٹھتے ،پانی پیتے،اپنے کپڑوں کو جو پسینے سے گیلے ہوچکے تھے،خشک کرتے اور پھر پانی سے تَر کرکے کام پر جُت جاتے۔اگرچہ کام کوئی زیادہ نہیں تھا،مگر مستری اَناڑی سا تھا۔چاربجے مستری نے اپنے اوزار سمیٹے ،مستری سمیت مزدوروں نے دیہاڑی لی اور چل دیے۔مَیں نے ماں کی پختہ قبرپر ایک نظر ڈالی،فاتحہ پڑھی اور واپس ہولیا۔گھر کا نقشہ بدل چکا تھا۔البتہ دیوار اور اس کی چھائوں موجود تھی۔گھر کے نئے اور پرانے مکین ٹھنڈے کمروں میں آرام فرما تھے۔ مجھے شام سے پہلے یہاں سے چار سو ساٹھ کلومیٹر دور میٹروپولیٹن شہر کی اُور پلٹنا تھا، یہ شہر میرا نیا ٹھکانا تھا،جہاں میری بیوی اور بچے تھے۔مگر مجھے ایک پیالی چائے کی ضرورت تھی۔ میرا باپ جو بہت بوڑھا ہوچکا تھا ، کمرے سے نکل کر دیوار کی چھائوں میں پڑی چارپائی پر آچکا تھا،مَیں نے کچن میں جا کر چائے بنائی اور پیالوں میں ڈال کر چارپائی پر آبیٹھا۔میرے اور باپ کے درمیان اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ چائے کا پہلا گھونٹ مجھے نمکین محسوس ہوا۔ حالانکہ مَیں نے چائے میں نمک نہیں ڈالا تھا اور مُدت سے نمک والی چائے پینا چھوڑ چکا تھا۔یہ نمک کہاں سے پڑ گیا؟ مَیں سوچنے لگا۔اسی دوران دوچار آنسو چائے کی پیالی میں جاگرے،جس سے چائے مزید نمکین ہوتی چلی گئی۔