اس برس پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر اس طرح منایا جارہاہے جیسا کہ 1931ء میں علامہ اقبال کی قیادت میں کشمیر کمیٹی منایاکرتی تھی۔ اس میں جوش وخروش ہے اور ہوش مندی بھی۔ کشمیری کہتے ہیں کہ انہیں غلام بنانے کی دستاویزات پر تاریخ میں تین بار دستخط کیے گئے۔ اٹھارویں صدی کے لگ بھگ وسط میں انہیں انگریزوں نے چند ٹکوں کے عوض فروخت کیا۔ اکتوبر 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کے شعلے پھوٹے اور ریاست جموں وکشمیر کا ایک بڑا حصہ آزادی کی دولت سے ہمکنار ہوا تو بھارتی ا فواج کشمیر پر قابض ہوگئیں۔ پرے سال بھارتیہ جنتاپارٹی نے کشمیر کی ریاست کی وحدت پر کلہاڑاچلایا۔ اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارتی یونین کا حصہ بنالیا۔ مسلم آباد ی کا تناسب بگاڑنے کا قانونی جواز فراہم کیا۔ اس دن کو کشمیر کی تاریخ میں سیاہ ترین باب کے طور پر یاد رکھاجائے گا۔ بھارتی حکومت نے کشمیر پر جو یلغار کی وہ محض کشمیر تک رکنے والی نہیں۔ بھارتی مبصرین بابانگ دل کہتے ہیں کہ پاکستان اور کشمیروں کو عسکری، سیاسی، سفارتی اور تجارتی میدان میں خاک چٹائیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی ایک بھرپور مقابلے ، محاذ آرائی اور کشمکش کے لیے میدان میں اتر چکی ہے۔وہ پسپائی اختیار کربھی نہیں سکتی کیونکہ یہ مودی سرکار کی سیاسی موت کے پروانے پر دستخطوں کے مترادف ہوگا۔چنانچہ مقبوضہ کشمیر میں حالات کے سدھار کا کوئی امکان نہیں۔بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کہتے ہیں کہ سولہ برس سے کم عمرنوجوانوں کی ذہنی صفائی کی خاطر انہیں ’’حراستی کیمپوں‘‘ میں ڈالا جائے گا۔ بھارت کے نئے چیف آرمی سٹاف نے کہا کہ انہیں حکم ملے تو وہ پاکستان کو عبرت ناک شکست دے سکتے ہیں۔ فوجی کمانڈر حرب وضرب کے لب ولہجے میں گفتگو کریں تو سمجھ آتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ وزیراعظم نریندمودی خود کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو سات سے دس دنوں میں دھول چٹاسکتے ہیں۔لائن آف کنٹرول پر جنگ کا سا پہلے ہی عالم ہے۔ کوئی روز جاتا نہیں کہ بے گناہ شہری مارے نہ جاتے ہوں۔ دوسری طرف بھارت کو اسٹرٹیجک برتری یہ بھی حاصل ہے کہ اسے پاک چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکہ کی بھی درپردہ شہ حاصل ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں اگرچہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دوبار کشمیر پر اجلاس ہوا ۔ دنیا بھر کی حکومتوں نے سرکاری سطح پر کشمیر کے مسئلہ کی سنگینی کو زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن حیرت انگیز طور پر برطانوی پارلیمنٹ ، فرانس، یورپی یونین کی پارلیمنٹ اور امریکی کانگریس میں مسلسل کشمیر کی گونج مسلسل سنائی دیتی رہی۔ ذرائع ابلاغ بالخصوص امریکی اور یورپی ممالک میں کشمیر کی جس قدر کوریج اس مرتبہ ہوئی وہ بے مثال تھی اور اس کی بدولت کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کے لیے حمایت کی عالمی لہر ابھری۔ بھارت کے برعکس پاکستان نے غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ عالمی سطح پر اس کا فائدہ ہوا کہ کشمیریوں کی تحریک کا مقامی اور مزاحمتی پہلو اجاگر ہوا۔ دہشت گردی کا الزام تمام ہوا۔تناؤ اور کشیدگی کے باوجود پاکستان نے سکھوں کا مقدس مقام کرتارپور کھول کر دنیا کوحیرت زدہ کردیا۔ تاہم اس پالیسی کا ایک نقصان یہ ہوا کہ بھارتی قیادت نے پاکستان کی صلح جوئی کو اس کی کمزوری پر معمول کیا۔اس کی دھمکیاں اور دھونس میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے۔ کشمیر میں بھی وہ نہ صرف اپنے پالیسیوں پر نظرثانی پر آمادہ نہیں بلکہ اس کا رویہ مزید سخت گیر ہوچکاہے۔وہ چاہتاہے کہ پاکستان کسی طرح اشتعال انگیزی کا جواب اشتعال انگیزی سے دے تاکہ تنازعہ میں شدت پیدا ہو۔ دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر جب بھی پہنچتے ہیں تو مسئلہ کشمیر دب جاتاہے۔ عالمی طاقتیں مداخلت کرتیں اور دونوں جوہری طاقتوں کو جنگ میں الجھنے سے بچالیتی ہیں۔ اس صورت حال کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ کشمیرکا پرنالہ وہیں کا وہیں بہتارہتاہے۔ ان حالات میں پاکستان کے پالیسی آپشنز محدود سے محدود تر ہوتے جارہے ہیں۔ضروری ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ ڈالوانے کی کوششوں کو تیز تر کیا جائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ چھ ماہ میں پانچ مرتبہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی۔اگرچہ اس ثالثی کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن دنیا بھر میں کشمیر کا ایک تنازعہ کے طور پر خوب چرچا ہوا۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بھی کشمیر کا ذکر بھارت کی سرزمین پر کیا۔ او آئی سی کے وزراء خارجہ کا کشمیر پر اسپیشل سیشن ہونے جارہاہے جو بہت بڑی پیش رفت ہے کیونکہ جس طرح عرب ممالک کو مودی سرکار نے تجارت اور کاروبار کے مواقعے فراہم کرکے شیشے میں اتارا وہ غیر معمولی ہے۔ علاوہ ازیںعرب ممالک کی حکومتوں جس طرح اسرائیل کے ساتھ تعاون اور شراکت دار ی کے بندھن میں بندھ رہی ہیں اس کے بعد ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ پاکستان یا کشمیر کا ساتھ دیں عبث ہے لیکن وزیراعظم عمران خان اور عسکری لیڈرشپ کے دباؤ اور مسلسل فالو اپ نے انہیں مجبور کیا کہ وہ کشمیر پر واضح موقف اپنائیں۔ حالت یہ تھی کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی رضا مندی کے بغیر بھارت کو بطور مبصر اوآئی سی کے اجلاس میں مدعو کرلیا تھا۔ عرب ممالک کے اس طرزعمل نے پاکستان کے چودہ طبق روشن کردیئے ہیں اور انہیں احساس ہوا کہ عرب حکومتیں ہوں یا مغربی ممالک وہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے زیادہ تجارت اور کاروبار کو اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر طویل المدت سفارت کاری ، سیاسی حمایت اور مسلسل عالمی عوامی ہمدردی کے حوصول کے لیے تگ ودو کرنا ہوگی۔ یہ ایک لمبی لڑائی ہے اور اسے جیتنے کے لیے مضبوط اعصاب کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں عالمی عدالت انصاف میں میانمار کی حکومت کے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر سخت ایکشن لیا ۔ اس طرح ایسی نظیریں قائم ہورہی ہیں اگر جن سے فائدہ اٹھایا جائے تو بھارت کو مشکلات کا شکار کیاجاسکتاہے۔ وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کو جنرل اسمبلی میں خطاب کے بعدداخلی معاملات میں زیادہ الجھادیاگیا۔ مولانا فضل الرحمان کو اللہ تعالے ہدایت دیے انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دے کر بے وقت کی راگنی چھیڑ دی۔اس طرح میڈیا کی توجہ کا مرکز کشمیر نہ رہا۔ اب وزیراعظم عمران خان مظفرآباد جارہے ہیں جہاں وہ اسمبلی کے اجلاس سے خطاب اورکشمیری لیڈرشپ سے مشاورت کریں گے ۔ چھ فروری کو میرپور میں تحریک انصاف کے زیراہتمام ہونے والے ایک عوامی جلسے سے بھی وہ خطاب کریں گے۔امید ہے کہ اس طرح کشمیر ایک بار پھر دوبارہ قومی منظر نامہ پر ابھرے گا اور دنیا کو ان سرگرمیوں سے یہ باور کرایا جائے گا کہ وہ کشمیر یوں کے ساتھ کھڑی ہو یا نہ ہو پاکستان چٹان کی طرح ان کی پشت پر کھڑا رہے گا۔