پاکستان کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے ابتدائی میچ میں بھارت کو دس وکٹ سے شکست دے کر بجا طور پر تاریخ رقم کر دی ہے۔کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ میچ ہمیشہ سے ایک جنگ کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔جنگ کا یہ ماحول بنانے میں بھارت کی انتہا پسند جماعتوں اور مصنوعات کی کمپنیوں کا کردار منفی انداز میں سامنے آتا رہا ہے۔حالیہ دنوں بھی ٹی وی اشتہار میں ٹیلی ویژن توڑنے کو پاکستان کی شکست کے ساتھ جوڑ کر دکھایا گیا۔کھیل کو جنگ کی صورت دینے کے کئی واقعات ہیں ۔بال ٹھاکرے اور ان کی انتہا پسند تنظیم شیو سینا نے نوے کے عشرے میں بھارتی سٹیڈیم میں داخل ہو کر میچ سے پہلے پچ کھود ڈالی۔ بعدازاں کئی بار ایسا ہوا کہ بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستان ٹیم کو نفرت اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری طرف بھارتی ٹیم جب کبھی پاکستان آئی ان کو تحفظ‘احترام اور محبت ملی۔ مارچ 2009 ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کے دورہ کے موقع پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔اس حملے کی وجہ سے سری لنکن ٹیم دورہ ختم کر کے وطن روانہ ہو گئی۔دہشت گردی کے واقعات کو جواز بنا کر لگ بھگ تمام کرکٹ ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔بارہ سال تک پاکستان میں کسی طرح کی بین الاقوامی کرکٹ نہ ہو سکی۔اس دوران بھارت نے کرکٹ کے علاوہ کبڈی‘ٹینس اور ہاکی کی ٹیموں کو بھی پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا حالانکہ ان کھیلوں میں حصہ لینے والے دوسرے ملکوں کے کھلاڑی پاکستان آ رہے تھے اور انہیں مکمل سکیورٹی فراہم کی جا رہی تھی۔پاکستان کے کھلاڑیوں کو بھارت نے انڈین پریمئر لیگ سے خارج کرا دیا۔بھارت کے کرکٹ بورڈ نے بگ تھری کلب بنا کر آسٹریلیا اور انگلینڈ کو ساتھ ملا لیا۔پاکستان کے لئے کھیل کے مواقع محدود کئے جانے لگے۔بھارتی بورڈ نے اپنے اثرورسوخ کو بروئے کار لا کر پاکستان کے کھلاڑیوں کے لئے مشکلات پیدا کیں۔دوسری طرف بھارت کے انڈر ورلڈ مافیا نے پاکستانی کھلاڑیوں کو جوئے‘سپاٹ فکسنگ اور ممنوعہ ادویات کے استعمال کے معاملات میں الجھانے کا منصوبہ آزمایا۔پاکستان کے کئی قابل قدر کھلاڑی اس جال میں پھنسے اور ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بنے۔ پاکستان نے پی ایس ایل کا آغاز کیا تو دیگر ممالک کی طرح بھارتی کھلاڑیوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی لیکن بھارتی حکومت نے کسی کھلاڑی کو پی ایس ایل میں شامل ہونے کی اجازت نہ دی۔چند ماہ قبل کشمیر پریمئر لیگ کا آغاز ہوا تو بھارت نے کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک کے کھلاڑیوں‘امپائرز اور آفیشلز کو دھمکی دی کہ اگر کسی نے کشمیر پریمئر لیگ میں کسی حیثیت سے شرکت کی تو اسے بھارت میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔بھارت کی کھیل دشمنی کا تازہ نمونہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سے پہلے بی جے پی‘عام آدمی پارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ میچ کا بائیکاٹ کرنے کا مشورہ تھا۔یہ ساری صورت حال بتاتی ہے کہ پاکستان کی کرکٹ کو ایک بڑے اور مسلسل بحران سے گزر کر خود کو زندہ رکھنے کا چیلنج درپیش تھا۔ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے ابتدائی میچ میں بھارت کو شکست دے کر پاکستانی ٹیم نے بھارت کے ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ توڑ دیا۔اس جیت کی سب سے زیادہ قابل تحسین بات یہ ہے کہ تمام کھلاڑی ٹیم کی شکل میں اپنا کردار نبھاتے رہے۔بائولرز‘بیٹرز‘ فیلڈرز سب نے کوئی ایک ایسا موقع اور کمزور کارکردگی نہیں دکھائی جس پر انگلی اٹھائی جا سکے۔کپتان اور مینجمنٹ نے کھیل کے ہر حصے کے لئے جو منصوبہ بندی کی اس پر عملدرآمد کے لئے خوب محنت کی۔پاکستانی ٹیم نے اس بار حیران کن تحمل کا مظاہرہ کیا۔کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان نے کھیل پر پوری طرح گرفت حاصل کرنے کے باوجود غیر ضروری جارحانہ شاٹس سے پرہیز کیا۔جہاں کمزور گیند ملی اسے بائونڈری سے باہر پھینکنے سے گریز نہیں کیا۔آئی پی ایل اور دیگر بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں مسلسل شرکت اور پریکٹس کے علاوہ بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں کو مالی مراعات پاکستانی کھلاڑیوں کی نسبت کہیں زیادہ مل رہی ہیں۔بھارت کی انتہا پسند حکومت کی دیکھا دیکھی اشتہاری صنعت نے پاکستان کے لئے طنزیہ لہجے اور الفاظ پر مبنی اشتہار بنا کر کھیل کو ایک بار پھر جنگ اور میچ کو میدان جنگ بنانے کی کوشش کی۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ رمیض راجہ اور ٹیم نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے لئے روانہ ہونے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں ٹیم کو بتایا گیا کہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں نے حالیہ دورہ پاکستان اس لئے منسوخ کیا کہ پاکستان مخالف لابی نے سازش کی۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم اپنی کارکردگی سے دنیا کا منہ بند کر دے تو ہر ٹیم پاکستان کے ساتھ میچ کھیلنے کو تیار ہو سکتی ہے۔ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے ابھی بہت سے میچ باقی ہیں لیکن پاکستان کو جیت کی شکل میں ایک سبق مل گیا ہے کہ کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے۔اس میں فرد واحد جتنا مرضی اچھا کھیلے اور پوری ٹیم اچھا نہ کھیلے تو سب ہار جاتے ہیں۔بھارت سے فتح اپنے معانی کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔پاکستان کے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ بحران کے مقابل منصوبہ بندی کرنے والے اور منصوبے پر عمل کرنے والے ایک ٹیم بن کر کھیلیں۔پوری قوم اپنی باصلاحیت کرکٹ ٹیم کی مشکور ہے جس نے ایسی خوشی فراہم کی جسے نسلی‘لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے کم نہیں کیا جا سکتا۔