پانچ جولائی کے بعد چھ جولائی بھی ہوتا ہے۔ پانچ جولائی1977ء کے وقت شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گاکہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی کوکھ سے ایک ایسا لیڈر جنم لے گا جو اسکی سوچ اور نظریے کا امین ہونے کا دعویدار ہو گا۔پاکستان کی سیاست میںجو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کسی حد تک جمہوری ہوتی جا رہی تھی اور کم از کم کرپشن جیسی بیماری اسکو لاحق نہیں ہوئی تھی اس سیاست کا نہ صرف خاتمہ ہو جائے گا بلکہ ملک میں ایک ایسی سیاست کی بنیاد رکھی جائیگی جو اسکے سارے نظام کو اتھل پتھل کر کے رکھ دے گی۔لوٹ مار کے ساتھ ساتھ ملکی اداروں کو اپنی چاکری پر مامور کرنا، گورننس کی ماہر بیوروکریسی کو ذاتی خدمتگاروں کی فوج میں تبدیل کرنے کے علاوہ لفافہ صحافت کی داغ بیل ڈالنے کا سہرا اسی لیڈر کے سر ہے۔سیاسی مخالفین کو پرانے زمانے کے ظالم حکمرانوں کی طرح تھانوں میں الٹا لٹکوا کر تشدد کرانا، جھوٹے مقدمے بنا کر جیل بھجوانا پھر وہاں پر خطرناک قیدیوں کی مدد سے انکو مروانے کی کوشش کرنا۔اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو مجبور کرنا کہ وہ سیاسی مخالفوں کو انکی مرضی کی سزا دے۔ سپریم کورٹ میں جب خطرہ محسوس ہو تو اس پر حملہ کرانا اور سپریم کورٹ میں ایک ایسی تقسیم پیدا کرنا کہ محترم جج صاحبان اپنے ہی بھائی کی جان کو آ جائیں۔ایک طویل فہرست ہے ایسے اقدامات کی جو ووٹ کی عزت میں مرے جا رہے ہمارے قائد میاں نواز شریف کے کارناموں پر مشتمل ہے۔ انکے جمہوری رویے اور جمہوریت کے بارے میں انکی سمجھ بوجھ کا اندازہ انکے ان کارناموں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔سیاست میں نواز شریف phenomenan نہ ہوتا تو جنرل ضیا ء الحق کو تو جانا ہی تھا۔اسکے بعد ہماری سیاست شاید 1988ء میں ہی اس مرحلے میں داخل ہو جاتی جس میں آ ج داخل ہونے جا رہی ہے۔جب فوج کسی صورت اقتدار میں آنے کو تیار نہیں ہے، جمہوریت کے بارے ایک وسیع حمایت پائی جا رہی ہے،عدالتیں آزادانہ کام کرنے کی کاوش کر رہی ہیں، افراد کی بجائے اداروں کی مضبوطی کی بات ہو رہی ہے، بیوروکریسی کی تباہی کے سلسلے کو ریورس گیئر میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ اگر جاری رہتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے تو بہت جلد ہم وقت کا دھارا اپنے حق میں بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہماری بد قسمتی کہیے کہ نواز شریف سیاسی منظر نامے پر لائے گئے اور انکو ہر قسم کی مدد میسر تھی، جنرل ضیاء زندہ تھے تو بھی نواز شریف کا کلہّ قائم تھا ، ان کے بعد بھی انکے ہم محکمہ لوگوں نے اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے نشان کا مکمل خیال رکھا۔ضیاء کے مارشل لاء کے سوسائٹی کو پہنچنے والے نقصانات اپنی جگہ، رہی سہی کسر میاں نوازشریف کے طرز حکمرانی نے نکال دی۔ قسمت کے ایسے دھنی کہ جنرل مشرف کے مارشل لاء میں ملک سے ایسے نکل گئے جیسے مکھن سے بال ، اور جب انہیں خود بھی یقین ہو گیا تھا کہ انکی سیاست ختم ہوگئی ہے اچانک وکلاء کی تحریک شروع ہوتی ہے اور مشرف کمزور سے کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں اور موصوف دھوم دھام سے ملک واپس آ جاتے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وہ واحد قومی لیڈر کے طور پر رہ جاتے ہیں اور 2013ء میں پھر وزیر اعظم بن جاتے ہیں۔امید کی جا رہی تھی کہ جلا وطنی اور طویل سیاسی تجربے کے ساتھ وہ ایک بہترین وزیراعظم ثابت ہونگے لیکن انہوں نے اپنی واردات وہیں سے شروع کی جہاں وہ 1999ء میں چھوڑ کر گئے تھے۔ذاتی خدمت پر مامور نوکر شاہی، اربوں روپے کے منصوبے،ہر قومی اور بین الاقوامی مسئلے پر من مانی، ہر ادارے پر اپنی مرضی کے آدمی کی تعیناتی، جو ادارے غلط حکم نہ مانیں یا کسی مسئلہ پر مشورہ دینے کی کوشش کریںاسے ٹکر مارنے سے ایک لمحہ گریز نہ کرنا۔ کابینہ سمیت تمام جمہوری اداروں کو اپنی باندی سمجھنا۔ ایک دفعہ پھر ہم اکتوبر 1999ء جیسی صورتحال کے قریب پہنچ رہے تھے خواہ وہ میڈیا لیکس کا معاملہ ہو یا نواز شریف کی بر طرفی کے بعد انکا اداروں کے حوالے سے بیانیہ ہو۔ وہ تو بھلا ہو پناما لیکس کا جس نے میاں نواز شریف کو اس قدر بوکھلا دیا کہ انکو کچھ ٹھیک نہیں سوجھا اور وہ غلطی پر غلطی کرتے چلے گئے۔ جانے انجانے اپنے خلاف ایک ایسا مضبوط کیس کھڑا کر دیا ۔بقول انکے دھرنا اور میڈیا لیکس سازش تھی لیکن یہ دونوں عوامل وہ نہ کر پائے جو انہوں نے خود کر دکھایا۔با لآخر انہوں نے اپنے انجام کی بنیاد سپریم کورٹ میں انتہائی کمزور بنیاد پر مقدمہ لڑ کر رکھ دی ۔ تا حیات نا اہلی اور غیر صادق اور امین نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے کراحتساب عدالت پہنچے جہاں پر انہوں نے ایک بار پھر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ انکے بچوں کے پاس جو جائیداد ہے اس کے بارے میں بنیادی حقائق جو وہ خود بیان کر چکے ہیں اسکی کوئی دستاویزی شہادت دے دیتے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں 1993 ء سے کرائے پر رہ رہے تھے اسکا کرایہ نامہ جو کہ یقیناً تحریری ہو گا وہ پیش کر دیتے اور 2006ء میں جن بئیرر سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر وہ انکے مالک بن گئے انکی کاپیاں عدالت میں جمع کرا دیتے۔ ان دو دستاویزات کے بعد کوئی عدالت انہیں اس مقدمے میں سزا دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔میاں نواز شریف عدالت کو برا بھلا کہیں یا خلائی مخلوق کو اپنی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرائیں لیکن ایک بار اپنی ادائوں پہ بھی غور کرلیں۔پانچ جولائی1977ء کو کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ چھ جولائی 2018ء بھی آنا ہے۔ فیصلہ آ چکا ہے اور اسکے تبدیل ہونے کا امکان اس لئے کم ہے کہ شریف خاندان اپنی سچائی کے حق میںبیان تو دے رہا لیکن کوئی ثبوت دینے کو تیار نہیں ہے۔ اس فیصلے کے مضمرات پر بحث ہوتی رہے گی کیونکہ فوری اثرات کے ساتھ ساتھ اسکے درمیانی اور طویل مدتی اثرات ہونے ہیں۔احتساب کا عمل اگر اسی شدت سے جاری رہا توضرور بہتری کی صورت نکلے گی۔اگر رک گیا تو پھر ترقی معکوس صرف تبدیلی کے نعرے سے نہیں روکی جا سکتی۔