پانی کا بحران ہمارے سر پہ کھڑا ہے لیکن بحیثیت ِقوم ہمیں اس کا ادراک نہیں۔ ملک میں میٹھے پانی( جو کھارا نہ ہو) کی قلت ہے‘ گھریلو استعمال کے لیے بھی اور زراعت کی غرض سے بھی۔ قیام پاکستان سے اب تک ہماری آبا دی میں چھ گنا سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ البتہ میٹھے پانی کی دستیابی تقریباًاتنی ہے جتنی بہتّر سال پہلے تھی۔یُوں آبادی بڑھنے کے باعث ملک میں پانی کی اوسطاًفی آدمی دستیابی چھ گُنا کم ہوگئی ہے۔ اگلے دس برسوں میں پاکستان کی آبادی میں سات آٹھ کروڑ کا اضافہ ہوجائے گا۔ سوچیے ‘ اُس وقت ملک میں پانی کی قلت کا کیا عالم ہوگا؟ یہی حالت رہی تو دس پندرہ سال بعد لوگ غریب لوگ میلوں لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر پانی حاصل کیا کریں گے‘ صوبے آپس میں پانی کے حصّہ پر لڑرہے ہوں گے‘ ہمارا زیادہ تر زرمبادلہ اناج اور سبزیاں منگوانے پر خرچ ہورہا ہوگا۔اس سے پہلے کہ ہم ایسی بھیانک صورتحال سے دو چار ہوں ‘ریاست کوبڑے پیمانے پر پانی کو محفوظ کرنے اوراسے کفایت شعاری سے استعمال کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ملک میں دستیاب میٹھے پانی کی مقدار توبڑھائی نہیں جاسکتی البتہ اسکوسلیقہ سے استعمال کرکے بحران سے بچا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم‘ ہمیں زراعت میں آب پاشی کے فرسودہ طریقے ترک کرنے پڑیں گے کیونکہ ملک میں جو دریائی اور زیرِمین میٹھاپانی دستیاب ہے اس کا پچانوے فیصد حصّہ آب پاشی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ہمارے صدیوں پرانے فرسودہ آبپاشی نظام میں نصف پانی ضائع کردیا جاتا ہے۔ اس ضیاع کوروک کر ہی ملک پانی کی قلت سے بچ سکتا ہے۔ عرصہ دراز سے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی تمام نہروں اور کھالوں کے اطراف کو پختہ کرلیں تو بیس پچیس فیصد پانی کی بچت ہوجائے گی ۔ نہروں اور کھالوں سے بیش قیمت میٹھا پانی زمین میں جذب ہوجاتا ہے جو کھارے پانی سے مل جاتا ہے یا سیم کا باعث بنتا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں نہروں اور کھالوں کو پکّا کرنے کے منصوبوں پر کام ہورہاہے لیکن خراماں خراماں۔جس سبک رفتاری سے ہمارے حکمرانوں نے موٹرویز اور خسارہ میں چلنے والے میٹروٹرانسپورٹ کے منصوبے بنائے اگر ا یسی مستعدی سے تمام نہروں کو پختہ بنانے کا کام کرلیتے تو ملکی معیشت کو ہر سال کھربوں روپے کا فائدہ ہوتا۔ پاکستان میں رائج روایتی آب پاشی کے طریقہ میں پورے کھیت کو پانی سے سیلاب آور(فلڈ) کردیا جاتا ہے۔ اسے بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں بہت پانی ضائع ہوتا ہے۔ ہمارے کاشتکاروں کو آب پاشی کے جدید طریقے اختیار کرنے ہوں گے جن میں بہت کم پانی استعمال ہوتا ہے۔ دنیاکے کئی ملکوں میں صحراوں کو ڈرپ آبپاشی اور بارانی آب پاشی (سپرنکلنگ) سے گل و گلزار بنادیا گیا ہے ۔ اسرائیل‘ آسٹریلیا اور کئی عرب ملکوں میں آب پاشی کے نئے طریقے کامیابی سے رائج ہیں۔ پرانے طریقہ میں کھیت کے ان حصّوں کو بھی پانی دیا جاتا ہے جہاں کوئی پودا نہیں ہوتا۔ ڈرپ آب پاشی میں پانی صرف پودوں کی جڑوں میں جاتا ہے‘ پورے کھیت میں نہیں۔ یُوں فصل کو پانی دینے کے لیے روائتی طریقہ کی نسبت نصف یا اس سے بھی کم پانی درکار ہوتا ہے۔ ہمارے اکثر کاشتکار ڈرپ آب پاشی کا طریقہ اس لیے استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا رقبہ ہموار نہیں ہوتا اور اسے ہموار بنانے پر بہت اخراجات آتے ہیں جو وہ برداشت نہیں کرسکتے۔دوسرے‘ ڈرپ آب پاشی کا نظام بھی نصب کرنے پر پہلی باربہت خرچ آتا ہے۔ پنجاب حکومت نے جدید طریقہ آب پاشی کوفروغ دینے کی غرض سے کاشت کاروں کی مدد کے منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں جن میں انہیں رعائتی نرخوں پرڈرپ سسٹم مہیا کیا جاتا ہے لیکن یہ چھوٹے پیمانہ کا محدود سا پروگرام ہے۔ اس رفتار سے تو ان طریقوں کو رائج کرنے میں ایک صدی درکار ہوگی۔یہ کام بڑے پیمانے پرکیے جانے کی ضرورت ہے۔حکومت ڈرپ اور سپرنکلنگ آبپاشی کو عام کرنے کے لیے چھوٹے‘ درمیانے کاشتکاروں کو آسان شرائط پر قرضے دے۔ ان طریقوں سے جو پانی بچے گا اس سے نہروں کے آخری حصوں پر زمینوں تک پانی پہنچ سکے گا‘ زیر زمین پانی پر انحصار کم ہوگا‘ نئی اراضی سیراب کرکے زیر کاشت لائی جاسکے گی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کرکے ہی پوری کی جاسکتی ہیں۔ گھریلو استعمال کے لیے پانی کی قلّت سے نپٹنے کی خاطر بھی دریاؤںکا پانی صاف (ٹریٹ)کرکے استعمال میں لانا ہوگا۔اس غرض سے زراعت کے لیے پانی کاحصّہ کچھ کم کرنا پڑے گا۔ اس وقت ملک میں دستیاب میٹھے پانی کا پانچ فیصدحصّہ گھریلو استعمال میں ہے۔ یہ تناسب لازماً بڑھانا پڑے گا ورنہ شہروں میں پانی کی قلت کے باعث لڑائیاں ہوں گی‘ ہنگامے ہوں گے۔ لاہور میں تو دریائے راوی کا پانی صاف کرکے شہریوں کو مہیا کرنے کے پراجیکٹ پر کام شروع کردیا گیا ہے کیونکہ شہر میں زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جارہی ہے ‘ اب اس پر مکمل انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ بڑا بحران ساحلی شہر کراچی کا ہے جسے اُسکی ضرورت سے آدھا پانی مل رہا ہے۔اس شہر کے دو کروڑ سے زیادہ شہریوں کو دریائے سندھ سے پانی دینے کی ضرورت ہے لیکن سندھ حکومت ایسا کرنے پر تیار نہیں۔اسی وجہ سے اضافی پانی فراہم کرنے کا منصوبہ( کے فور) طویل عرصہ سے لٹکا ہوا ہے۔ سندھ کے زمیندار دریائی پانی کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ ملک میں آب پاشی کے لیے سب سے زیا د ہ فی ایکڑ پانی سندھ میںاستعمال کیا جاتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ سندھ کے زمیندار آبپاشی کے پسماندہ طریقہ سے چمٹے ہوئے ہیں جس میںفصل کو پانی دینے کی بجائے ناہموار کھیت کو فلڈ کردیا جاتا ہے۔اگر سندھی زمیندار آب پاشی کے جدید طریقے اختیار کرلیں تو کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں میں گھریلو استعمال کے لیے دریائے سندھ کا پانی بآسانی دستیاب ہوسکتا ہے۔ تاہم سندھ کے زمینداروں کو آبپاشی کے جدید طریقے استعمال کرنے پر آمادہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔