چاروں طرف سے بلند ہوتی آوازوں کا شور حد سے بڑھ جائے تو بعض اوقات سناٹے جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ آوازیں نہ کوئی امکان بنتی ہیں ، نہ پیغام اور نہ ہی نوحہ۔ ان کے گھیرائو میں نہ تو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی اجنبیت کا ۔بس ایک بے دلی سی محصور کئیے رکھتی ہے۔ آج کل ایسا ہی عالم پاکستان کا ہے، عجیب متذبذب و مبہم معاشرتی و سیاسی فضا ہے۔ ہر طرف اعلان ناموں کے ڈھیر لگے ہیں لیکن انہیں ترتیب دے کر دیکھو تو نہ آئین کے ضابطے بنتے ہیں نہ بغاوت کے خدّ و خال۔ کبھی کبھی تو بہت مایوسی ہوتی ہے کہ شاید ہماری زندگیوں میں تو وطنِ عزیز کا نظام نہیں بدلے گا۔ ہمارے جسے کئی خوش اْمید بے سود ہی ایک مدّت سے انسان کے مساوی حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے حرف و معنی سے سر پھوڑ رہے ہیں۔کوئی مثبت تبدیلی تو کیا آنا تھی بلکہ بطور قوم فردِ واحد سے جماعت تک عالمی سطح پرتماشہ بنتے جارہے ہیں۔ یوں تو تقریباً تمام ہی مسلمان لیکن بالخصوص ہم بیرونِ مْلک پاکستانی نائن الیون کے بعد پوری شدّت سے اَن دیکھی قیدِ تنہائی کی طرف دھکیلے جارہے ہیں۔سماجی و معاشی سطح پر ہمیں اپنے شب و روز کو باعزّت طور پر گزارنے کے لیے دیگر شہریوں کی نسبت کئی سطح پر اپنے حقوق کی جنگ لڑنا پڑتی ہے،اپنی بقا کی یہ ایک ایسی تہہ دار و مسلسل جدو جہد ہے کہ عمرِ عزیز پا بجولاں ہی گزر جاتی ہے۔ الحمد اللّہ !مگر پلٹ کر دیکھیں تو پچیس تیس برس پہلے یہ مشقت ، رزقِ حلال کی آسودۂ جاں مشّقت ہوا کرتی تھی اس آس کے ساتھ کہ ایک دن اپنی دھرتی پر جاکر خیمے لگائیں گے۔ اْس آس کو بکھرے ہوئے تو زمانہ ہوا۔ لیکن اس مختلف قوموں کے اشتراک سے بسائے گئے ملکوں میں رہتے ہوئے جب پاکستان کے موجود و سابق حکمرانوں کے ملک دْشمن اعمال و بیانات سامنے آتے ہیں تو سر جْھک جاتے ہیں۔ عالمی نشریاتی ادارے جب انہیں نشر کرتے ہیں تو جو تمسخر اور حقارت چہروں و لہجوں میں ہوتا ہے اس کا زہر رگوں میں اْتر جاتا ہے۔ جی ہاں مَیں انہی بیانات کی بات کر رہی ہوں جو پاناما لیکس کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں اور پاکستانی اخبارات و نشریاتی ادارے انہیں شہ سْرخیوں کے ساتھ لگاتار نشر کر رہے ہیں۔ شاید مِن حیث القوم ہمیں اپنے ملک کا وقار و بقا عزیز ہی نہیں رہا۔ ورنہ کیسے ممکن تھا کہ عوام آنکھیں بند کرکے ایسے بے کردار نمائندے منتخب کرتے اورجب یہ نمائندے حلفِ وفاداری سے منحرف ہوئے تھے تو انہیں عوامی سطح پر رد نہ کر دیا جاتا۔ گزشتہ دنوں تین بار منتخب سابق نااہل وزیرِ اعظم نے انڈیا میں ’’بمبئی اٹیک‘‘ کے حوالے سے جو بیان دیا اور فوجی اداروں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔اس سے زیادہ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ موصوف ابھی تک آزاد ہیں اور اپنے اس بیانیہ میں مزید اضافے فرما رہے ہیں۔ اس حوالے سے سابق جرنیل جنہوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بے تحاشہ کام کیا جس کے باب میں انہیں پرستش کی حد تک سراہا گیا ، اْن کا ڈان لیکس کے سلسلے سے اس ’گروہِ شریفاں‘ کو نظر انداز کرنا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔اب تو یقین ہو چلا کہ یہ واقعی سیاسی مافیا ہے جو کسی نہ کسی طرح پہلے تو ہر اہم ادارے پر اثر انداز ہوتا ہے اور پھر اسے دامے درمے سْخنے کھوکھلا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ گویا پاکستان سے ان کی واجبی سی وابستگی بھی نہیں ہے، نہ ان کی اپنی جڑیں اس مٹی میں ہیں نہ ان کی اولادوں کی اور نہ ہی ان کے آقائوں کی۔ اسی لیے تو بار بار شواہد ملتے ہیں کہ پنجاب ہو ، جنوبی پنجاب ہو، سندھ ہو یا بلوچستان اس کی کوئی بستی، شہر، صحرا و دریا، انہیں اتنا عزیز نہیں ہے جتنا انڈیا میں ان کے بزرگوں کا ترک کیا ہوا گائوں ’ ’جاتی عمرہ‘‘ ہے جہاں ان کی حیثیت ایک عام شہری کی رہی ہے۔ لیکن پاکستان کے عوام اور ملٹری و سویلین اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جب یہ بااختیار ہوئے تو اپنے دورِ اقتدار میں ذاتی نہیں بلکہ قومی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے انڈیا کے اس گائوں کو ’مثالی‘ بنا دیا۔ موجود ویڈیوز اور اخباری تراشے گواہ ہیں کہ اس میں بسنے والے شہری کس طرح ان کی شان میں رطب اللسان ہیں۔ان کے مطابق شریف برادران نے اتنا سرمایہ خرچ کیا کہ گھر گھر پانی اور بجلی پہنچا دئیے، سکولز کھول دئیے، وہاں کے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں اپنے صنعتی کارخانوں میں ملازمتیں دیں۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان کی شہری و دیہی آبادیاں پانی ، بجلی و خوراک جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہی رہی۔ جنوبی پنجاب کا تو کئی دہائیوں سے واحد ذریعہ آب یہ ہے کہ کبھی کبھار ہونے والی بارش کا پانی قدرے گہری جگہ پر محفوظ کر لیا جاتا ہے جسے ’ٹوبہ‘ کہتے ہیں اور جس کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔۔ مہینوں انسان اور جانور ان چھوٹے چھوٹے ٹوبوں سے پیاس بجھاتے اور دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں۔ پھر استعمال و موسمی اثرات کے باعث جب یہ ذخیرے ختم ہونے لگتے ہیں تو ان آبادیوں کو خاموش موت یا بے سروساماں ہجرت انہیں گلے سے لگا لیتی ہے۔۔ یہی حال ’تھل‘ سندھ کا ہے بلوچستان بھی اسی طرح سے بے آب و گیاہ ہے اور اب تو تباہی کراچی جیسے بڑے شہر تک آپہنچی ہے۔ ہم محنت کش طبقہ کے بیرونِ مْلک پاکستانی جن مْلکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، جانے کیوں خود کو پاکستان کی صورت حال سے الگ نہیں رکھ پاتے۔ جب یہاں کے فلاحی نظام کو دیکھتے ہیں حسرت کرتے ہیں کہ کاش پاکستان بھی اسی طرح کے محبِ وطن حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوتا کہ جن میں شخصی سطح پر ہزار خامیاں ہوں وہ اپنی دھرتی کا سودا نہیں کرتے۔ اگر ایسی کسی سوداگری کا شائبہ بھی ہو تو مقامی سکیورٹی ادارے دیانتداری سے تفتیش کرتے ہیں جس کی مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے جن پر روس سے کاروباری مراسم اور انتخابات میں حمایت حاصل کرنے کا شبہ ہے۔ انہیں ہی نہیں ان کے رفقا کے ساتھ ساتھ ذاتی وکیل کوہن کو بھی شاملِ تفتیش کر لیا گیا ہے اور بے دریغ بنک اکائونٹس تک کنگھالے جارہے ہیں۔ دْنیا کا سب سے طاقتور صدر بھی اتنا طاقتور نہیں ہے کہ مْلکی مفاد کی حفاظت کرنے والے اداروں پر اثر انداز ہوسکے۔ پھر بھی ٹرمپ ’پینٹا گون‘ یا ’سی آئی اے پر عوامی سطح پر ہرزہ سرائی کرتے دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور ہمارے ہاں آئین ، عدلیہ، ملٹری اور سِول ادارے نام نہاد سیاستدانوں کے ہاتھ کھلونا بن کر رہ گئے ہیں۔ حیرت تو اْس فوجی قیادت پر بھی ہوتی ہے جو مْلک کی سالمیت کے خلاف َڈان لیکس‘ جیسے اہم معاملات پر ان کے ذمہ داروں کے لیے آسانیاں فراہم کرتی رہی اور دروغ بہ گردنِ راوی ایک نام کو ہذف کرنے کی خبر بذاتِ خود فون کرکے دی۔۔ کیا انہیں اْس وقت اْن کم عمر نوجوانوں کے خون میں نہائے لاشے یاد نہیں آئے جو روز اْٹھائے جاتے ہیں اسی انڈیا سے سرحدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جس سے متعلق یہ ڈان لیکس تھیں۔۔ طویل عرصہ سے ہر سطح پر اعتبار و بے اعتباری کے درمیان پِستے ہوئے عوام کا تو یہ عالم ہے، ہونٹ پیاسے رہے، حوصلے تھک گئے، عمر صحرا ہوئی ہم نے پانی کے دھوکے میں پھر ریت پر کشتیاں ڈال دیں