4500 میگاواٹ سے زائد بجلی کی صلاحیت کے حامل میگا ہائیڈرو پاور منصوبے آزاد جموں و کشمیر کے اندر حالیہ چند مہینوں میں گرما گرم بحث و مباحثہ کا موضوع بنے ۔ ان منصوبوں کے خلاف مظفرآباد کے کچھ شہریوں نے لاہور میں واپڈا کے صدر دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ۔ دوسری جانب ان منصوبوں کے ماحولیات اثرات،ناقص ڈیزائن اور طویل عرصے سے واٹر یوجز چارجز یا رائلٹی کے نرخ طے نہ کرنے اور بجلی کے منصوبے شروع کرنے سے قبل باضابطہ معاہدہ نہ کرنے کے طرزعمل نے حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان پائی جانے والی سرد مہری کو گہرا کیا ہے۔ ڈھائی بلین ڈالر کی خطیر رقم سے تعمیر ہونے والے مجوزہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے خلاف جاری مہم محض اتفاق نہیں بلکہ اس کا ایک طویل اور تلخ پس منظر ہے ۔ میرپور آزاد کشمیر کا وہ شہر ہے جس کے سینے پر ساٹھ کی دہائی میں منگلاڈیم تعمیر کیاگیا۔ ہزاروں خاندان اجڑے۔ آباواجداد کی قبریں پانی میں بہہ گئیں۔ مساجد ، خانقاہیں اور درجنوں درگاہیں بھی جو شہریوں کی عقیدت اور محبت کا مرکز ومحور تھیں دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہوگئیں ۔میرپور محض ایک شہر کا نام نہیں تھا بلکہ ایک پوری تہذیب اس کے گرد بستی تھی۔ پاکستان سے محبت کے نام پر لوگوں نے خوشی خوشی اسے دریا برد کردیا۔ صدرایوب خان نے میرپوریوں سے وعدہ کیا کہ انہیں بجلی رعایتی نرخوں پر ملے گی۔ ڈیم سے پیدا ہونے والے وسائل میں وہ شراکت دار ہوں گے۔ آبپاشی اور پینے کے لیے وافر پانی دستیاب ہوگا۔ ڈیم مکمل ہو۱۔واپڈا حکام نے بوریا بستر سمیٹا اور لاہور چل پڑے۔بقول ابن انشا : ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا 2003ء میں واپڈا نے منگلا ڈیم کی اپ ریزنگ کی تجویز پیش کی۔ ملک توانائی کے سنگین بحران سے دوچار تھا چنانچہ جنگی بنیادوں پر منگلاڈیم کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا ۔مخالفانہ عوامی ردعمل دیکھ کر صدر پرویز مشرف نے میرپوریوں کے ساتھ وعدہ کیا کہ ان کے تمام مطالبات پر عمل درآمد کو وہ یقینی بنائیں گے۔ شہریوں اور آزادکشمیر حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ وفاقی حکومت منگلاڈیم میں ماہی گیری ،سیاحت کے حقوق کے علاوہ پینے اور آبپاشی کے لیے پانی کی فراہمی کی ضامن ہوگی۔ صدر پرویز مشرف کی ہدایت پر وفاقی اور آزاد جموں اور کشمیرکی حکومتوں اور واپڈا کے مابین ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔جسے "منگلا ڈیم اپ ریزنگ پراجیکٹ 2003 " کا نام دیاگیا۔معاہدے میں طے پایا کہ میرپور شہر اور قرب وجوار کے دیہاتوں کو 126 کیوسک پینے کے پانی کی فراہمی ایک ا یگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ روبہ عمل لائی جائے گی۔ یہ بھی طے پایاکہ آبپاشی اور مویشیوں کے لئے 486 کیوسک پانی ارساسے منظوری کے بعد فراہم کیاجائے گا۔ ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر اورمستقبل میں تنازعات یا غلط تشریح سے بچنے کی خاطر آزادکشمیر کی حکومت نے اصرار کیا کہ وفاقی حکومت باقائدہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے 126 کیوسک پینے کے پانی کی فراہمی کا اعلان کرے۔ قانون و پارلیمانی امورکی وزارت کے ساتھ مشاورت کے بعدوفاقی حکومت نے 2006 میںآزادکشمیر کو مطلع کیا کہ 126کیوسک کے پینے کے پانی کی منظوری واضح اور حتمی ہے۔مزید منظوری کی ضرورت نہیں۔ فیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) سے سات ارب روپے کی خطیر لاگت سے 10 کلومیٹر طویل پائپ لائن، اسٹوریج کے لیے ٹینکس،واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ، پمپنگ کا نظام اور عملے کے لئے ایک رہائشی کالونی سمیت بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا۔ افسوس! منصوبے کاتقریبا 80 فیصد مکمل کیاجاچکا تو نہ جانے واپڈا حکام کو کیا سوجھی کہ میرپور کو پینے کا پانی فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کی منظوری کے لیے یہ مقدمہ پیش کردیا۔ آزادکشمیر کی حکومت اور شہریوں میں غم وغصے کی لہراٹھی۔یہ احساس عام ہوا کہ منگلاڈیم کی اپ ریزنگ کے بعد واپڈا کا کام نکل گیا توان سے بدعہدی کی گئی ۔ حکومت آزادکشمیر نے درجنوں مرتبہ وفاقی حکومت کو یاد دلایا کہ وہ پینے کا پانی ایک سرکاری حکم نامہ کے ذریعے میرپور کو فراہمی کا صرف وعدہ ہی نہیں کرچکی بلکہ سہ فریقی معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کی ضامن بھی ہے۔پیش نظر رہے کہ عسکری حکام نے واپڈا اور حکومت آزادکشمیر کے درمیان معاہدے کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا بلکہ ہر اہم اجلاس میں کورکمانڈر منگلا شریک ہوتے رہے تاکہ حکومت آزادکشمیر کا اعتماد قائم رہے۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ آزادکشمیر کی وفاق کے پالیسی سازاداروں میں گلگت بلتستان کی طرح نمائندگی نہیں۔ ریاست جموں وکشمیر کی متنازعہ حیثیت کے باعث ان دونوں خطوں کو پارلیمنٹ سمیت وفاقی اداروں میں نمائندگی نہیں دی گئی۔ وفاقی حکومت ہی ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ ان کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ میرپور کو پینے اور آبپاشی کے لیے پانی کی فراہمی کا مقدمہ کونسل آف کامن انٹرسٹ میں پیش ہوا تو سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا نے آزادکشمیر کو ضرورت کا پانی فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ عذر پیش کیاگیاکہ آزادکشمیر ارسا کا رکن نہیں لہٰذا اسے پانی فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے خطے میں پھیلی ۔ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر نے عوامی جذبات کو زبان دی اور استفسار کیا کہ کیا دریائے جہلم سندھ سے ابلتاہے یا کشمیر کی وادیوں سے؟ واپڈا حکام کے اس منفی طرزعمل نے گزشتہ کئی برسوں سے جہاں میرپور کے شہریوں کو پینے کے پانی سے محروم رکھا وہاں مظفرآباد اور اسلام آباد کے درمیان بداعتمادی کی دراڑ کو مزید گہراکیا۔ حکومت آزادکشمیر کا موقف ہے کہ 2003ء معاہدے کے مطابق واپڈا کو جڑی کس ٹنل سے میرپور کو پانی کی فراہمی کویقینی بنانا ہوگا۔ کسی دوسرے فورم سے اجازت کے لیے رجوع کرناغیر ضروری ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم فاروق حیدر کہتے ہیں کہ پانی کے استعمال پر کشمیریوں کا حق فائق ہے۔دریائوں کا منبع کشمیر ہے نہ کہ سندھ یا بلوچستان۔ فاروق حیدر چاہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان ذاتی دلچسپی لے کر یہ مسئلہ حل کرائیں کیونکہ اس ایک مسئلہ نے وفاقی اداروں کے طرزعمل پر آزادکشمیر میں گہر ے شکوک وشبہات پیدا کیے ہیں جو قومی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ نیلم جہلم کے بجلی گھر کی تعمیر کے وقت بھی بہت سارے وعدے کیے گئے جو ابھی تک ایفانہیں کیے گے ۔چنانچہ چین کی ایک کمپنی نے1124میگاواٹ کا کوہالہ منصوبہ شروع کرنا چاہا تو اس کے خلاف زبردست عوامی مزاحمت ابھری۔اگر واپڈا نے نیلم جہلم منصوبے میں فنی سقم نہ چھوڑے ہوتے تو کوہالہ جیسے عظیم قومی منصوبے پر کب کی تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہوتیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان ماضی کی سیاسی تلخیوں کو فراموش کریں۔ مظفرآباد تشریف لائیں اور قصہ زمین برسرزمین طے کریں۔