وطن عزیز اپنے اس بیٹے سے محروم ہوگیا،جو نہ صرف جسمانی طور پربلکہ اپنے کردار میں بھی بلند قامت تھا۔ وہ اکبر بگٹی کی طرح اپنے مزاج میں جنگجو نہ تھا مگر بہت بہادر تھا۔ وہ چالاکیوں کو بھی سمجھ سکتا تھا ۔ کیوں کہ وہ بہت دانا تھا۔ اب ہماری ملکی سیاست دل والوں اور دماغ والوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔اس لیے ملکی سیاست کی تنگ گلیوں میں تاریکی بڑھتی جا رہی ہے۔وہ لوگ کہاں ہے؟ وہ لوگ جو اپنی تقاریر میں یہ شعر گنگناتے تھے : ’’ہم ہیںچراغ آخر شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے‘‘ اجالا تو کہیں نظر نہیں آ رہا۔ ایک گھنگھور اندھیرا ہے۔ اس اندھیرے میں عطاء اللہ مینگل جیسے لوگ چراغ کے مانند تھے۔ کیوں کہ وہ اقتدار کے دیوانے نہیں بلکہ اصولوں سے محبت کرنے والے تھے۔ اب ہم ایسے لوگ کہاں سے لائیں؟ ’’جن سے مل کر زندگی پیار ہو جائے وہ لوگ آپ نے دیکھیں نہ ہونگے؛ ہاں مگر ایسے بھی ہیں‘‘ مینگل صاحب ایسے رہنما تھے جن کی سوچ سے اختلاف تو رکھا جا سکتا تھا مگر ان کا کردار صاف شفاف تھا۔ وہ پہاڑی جھرنے کی طرح بلوچستان کی پیاسی اور سنگریز سرزمین سے پھوٹ کر نکلے۔ وہ خود پیاسے رہے مگر انہوں نے بہت سارے پیاسوں کی پیاس مٹائی۔ انہوں نے اپنے کردار کو اپنی دھرتی کے پہاڑوں کے مانند بلند رکھا۔ اب بلوچستان میں کون بچا ہے؟ غوث بخش بزنجو؛ اکبر بگٹی اور اب عطاء اللہ مینگل۔ ہم نے کن کن کو کھویا ہے! وہ لوگ جو تاریخ تھے۔ وہ لوگ تاریخ ساز بھی تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ ان کو سمجھنے میں ہم سے دیر ہوگئی۔ اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ مینگل صاحب بلوچ قومپرست تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک جمہوری مزاج رکھنے والے انسان بھی تھے۔ وہ سردار تھے مگر انہوں نے سرداری کو چھوڑ دیا۔ سرداری کی پگڑی اپنے پوتے کے سر پر رکھنے کے بعد بھی وہ سربلند رہے۔ ان کے قد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ سرداری ترک کرنے کے بعد ان کا قد زیادہ بلند ہوا۔ سردار تو اب بھی ہے۔ بلوچستان تو غریبوں اور سرداروں کا دیس ہے۔بلوچستان میں ہر پتھر کے نیچے ایک سردار موجود ہیں مگر ان میں بہت سارے سردار ایسے ہیں جن پر مرزا غالب کا یہ شعر بالکل ٹھیک لگتا ہے کہ: ’’بھرم کھل جاوے ظالم تیری قامت کی درازی کا اگر اس طرہ پر پیچ کا ہر پیچ و خم نکلے‘‘ سردار عطاء اللہ مینگل ایک سفاک سردار نہیں تھے۔ وہ مکھن جیسے ملائم تھے۔ ان کا لہجہ بہت دھیما تھا۔ وہ سخت سے سخت بات کہتے ہوئے بھی ثقافتی آداب کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ انہوں نے تعلیم اور تربیت کے حوالے سے آخر تک اپنے آپ کو طالب علم رکھا۔ وہ جب بھی کسی سے بات کرتے ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے بات کرتے۔ انہوں نے ہمیشہ عزت کا خیال رکھا۔ وہ سب کی عزت کیا کرتے تھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ ان کی عزت بھی کی جائے۔ ہم نے پاکستان کے بلوچوں کو سمجھنے میں بڑی غلطی کی ہے۔ ہم کو معلوم ہونا چاہئیے کہ ایک بلوچ کے لیے عزت سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بلوچوں کے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی لکھا ہے کہ ایک بلوچ بہادر ماں کا بیٹا ہوتا ہے اور اس کے چہرے پر عزت دمکتی ہے۔ مینگل صاحب کے سیاسی مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ انہوں نے عزت کو ہمیشہ سب سے زیادہ اہمیت دی۔ جب بھی کڑی آزمائش آئی مینگل صاحب سربلند رہے۔ مینگل صاحب پاکستان کے ناراض فرزند تھے۔ وہ بلوچ قومپرست کیوں بنے؟ اس سوال پر ایک کتاب تحریر کرنے کی ضرورت ہے مگر بلوچ قومپرست ہونے کے باوجود بھی انہوں نے کبھی بھی پنجاب کے غریب عوام سے نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ ان کی جدوجہد جمہوری تھی۔ انہوں نے کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا۔ بلوچستان میں جب بھی کسی محنت کش کا خون بہا؛ مینگل صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ انہوں نے مصلحت کے خاطر بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کی کھل کر مخالفت نہیں کی مگر انہوں نے ہمیشہ اپنا دامن کسی بھی مظلوم کے خون سے تر ہونے نہیں دیا۔ ان کو تاریخ کا توازن معلوم تھا۔ انہوں نے تاریخ کے رشتوں کا ہمیشہ خیال رکھا۔ وہ بلوچ تھے مگر ان کا سندھی زباں پر اتنا ہی عبور تھا جتنا کسی سندھی کا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے نفرت کی سیاست کو نفرت کی نظر سے دیکھا۔ وہ حق پرستی کے عاشق تھے۔ انہوں نے اقتدار کے لیے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ انہوں نے جدید تصورات کو تاریخی روایات کے ساتھ جوڑ کر رکھا۔ عطاء اللہ مینگل کا نام ہمیشہ عزت کے ساتھ لیا گیا اور لیا جاتا رہے گا۔ کیوں کہ انہوں نے اصولوں کو اقتدار سے بلند سمجھا ۔ انہوں نے بلوچ سیاست میں اپنا مقام الگ رکھا۔ انہوں نے کبھی بھی موقعہ پرستی کو سیاست کا لازمی جز نہیں سمجھا۔ ان کی سیاست ایک طرح جدوجہد تھی۔ وہ آخر تک جدوجہد کرتے رہے۔ ان کا رتبہ سیاسی اختلافات سے کبھی متاثر نہیں ہوا۔ وہ کوشش کرتے رہے کسی طرح تاریخ کے پیرہن کو تار تار ہونے نہ دیں۔ مینگل صاحب کی موت نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے اصول پرست حلقوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں ہے۔ مینگل صاحب بلوچستان کے پہلے وزیر اعلی رہے اور پھر ان کے بیٹے اختر مینگل کو بلوچستان کی حکومت کی سربراہی ملی مگر ان کے خاندان نے کرپشن تو دور کی بات کبھی اقربا پروری کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ عطاء اللہ مینگل قدامت اور جدیدیت کا سنگم تھے۔ انہوں نے نہ صرف بلوچ سیاست میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی بلکہ انہوں نے سندھ کی سیاست کو بھی اصولوں اور آدرشوں سے جوڑنے کی کاوش کی۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی مخالف تھے مگر انہوں نے ان کے خاندان کے ساتھ شفقت اور محبت کا رشتہ نہیں توڑا۔ عطاء اللہ مینگل نے ذات اور نظریات میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب رہے۔انسان آتے ہیں ؛ جاتے ہیں۔ مگر کچھ انسان اس نیلے آسمان تلے روشنی کی علامت بن جاتے ہیں۔مینگل صاحب روشنی کے سفیر تھے۔ وہ خود روشنی تھے۔ یہ ملک ہمیشہ ان کی کمی محسوس کرتا رہے گا۔ کیوں کہ ان کے بعد بلوچستان میں ایک عظیم کردار پیدا ہونے میں بڑا وقت لگے گا۔ تو ہم نے ابتدا میں تاریکی کا تذکرہ کیا تھا۔ اس تاریکی کا ایک حوالہ عطاء اللہ مینگل کی جدائی بھی ہے۔ ان کے جانے سے جو تاریکی پیدا ہوئی ہے اس تاریکی کا کچھ ایسا ہے جس منظر کو منظوم کرتے ہوئے ایک شاعر نے لکھا ہے: ’’پھر مجھے تاریک کرکے تیرگی بڑھتی گئی میں نے دیکھا دور تک سنسان تھیں گلیاں میری اور پھر میں روشنی کی کرچیوں میں عکس اپنا دیکھ کر تجھ سے جدا ہوتا گیا‘‘