پاکستان قائم ہوا تو افغانستان اس کے اس صوبہ سرحد پر ڈیورنڈ لائن معاہدے کی بنیاد پر دعویدار کے طور پر سامنے آگیا جس کے شہریوں نے ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان سے اپنی وابستگی کا فیصلہ سنایا تھا۔ بات فقط اتنی نہیں تھی کہ پختونوں نے پاکستان کے حق میں بہت ہی بڑی تعداد میں ووٹ دیئے بلکہ اس ووٹ کے ذریعے سرحدی گاندھی اور ان کی سیاست بھی مسترد ہوگئی تھی اور افغانستان کا یہ دعویٰ بھی کہ یہ علاقہ اب بھی اس کا حصہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ باچاخانی پکوڑے جب تک افغان تیل میں تلتے رہے تب تک خیبر پختون خوا کے باسی ان کی جماعت کو ہر الیکشن میں مسترد کرتے رہے۔ یہاں تک کہ 1990ء کے انتخابات میں ان کے آبائی علاقے چارسدہ سے مولانا حسن جان شہید نے خان عبدالولی خان جیسے قد آور قومی لیڈر کی لالٹین ایسے گل کی کہ پھر روشن نہ ہوسکی۔ لیکن جب یہی جماعت 2008ء میں پہلی بار پاکستان سے اپنی واضح اور دوٹوک کمٹمنٹ کے ساتھ الیکشن میں اتری تو پختون ووٹرز نے پہلی بار انہیں صوبائی اقتدار کا مزہ بھی چکھایا۔ 2008ء سے 2013ء کے مابین قائم اے این پی کی صوبائی حکومت پختون شعور کے افغانستان کے حوالے سے واضح موقف کا شاندار اظہار ہے۔ اگر اس سے بھی زیادہ قابل غور پہلو دیکھنا ہو تو ٹی ٹی پی کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ یہ دہشت گرد تنظیم پاکستان کے ہر کونے میں بم دھماکے کرچکی۔ نہ اس نے مارکیٹیں چھوڑیں، نہ پارک، نہ مساجد کو بخشا اور نہ ہی مزارات کی پروا کی۔ جبکہ پولیس یا فوجی تنصیبات پر اس کے کئے گئے حملوں کا تو حوالہ دینے کی بھی ضرورت نہیں جو پاکستان دشمنی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ ہے ہی نہیں کہ یہ تنظیم افغان حکومت اور ان کے غیر ملکی سرپرستوں کی آلہ کار تھی اور ہے۔ اس کے تمام اہم کمانڈر آج بھی افغانستان سے ہی آپریٹ کر رہے ہیں جس سے افغان حکومت بھی انکار نہیں کرتی۔ وہی افغان حکومت جس کا پاکستان سے جھگڑا ہی ڈیورنڈ لائن کی بنیاد پر چلا آرہا ہے،وہ اس تنظیم سے دہشت گردی تو بہت بڑے پیمانے پر کروا پایا ہے لیکن ٹی ٹی پی سے کوئی ایسا نعرہ نہیں لگوا سکا جس سے اس کے ڈیورنڈ لائن والے قدیمی موقف کو فائدہ پہنچ سکے۔ بالفاظ دیگر وہ اس تنظیم کو علیحدگی پسند تنظیم کا روپ نہیں دے سکا۔ کیوں ؟ کیونکہ علیحدگی کا کوئی تصور خیبر پختونخوا میں ادنیٰ ترین درجے میں بھی پنپنے کی گنجائش نہیں رکھتا۔ ایک طرف خیبر پختون خوا یا سابق صوبہ سرحد کی پاکستان سے وابستگی اس قدر واضح اور دو ٹوک رہی ہو اور دوسری افغانستان 1948ء سے لے کر 1978ء تک افغانستان میں دہشت گردی کے ایسے کیمپ چلاتا رہا ہو جہاں سے تربیت لینے والے دہشت گرد پاکستان کے قریہ و بازار میں بم دھماکے اور قتل غارت گری کرتے رہے ہوں اور اس کے باوجود پاکستان کا کچھ نہ بگاڑ پائے ہوں تو اس سے پاکستان کے معاملے میں افغانستان کی دوہری مشکلات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔جس زمانے میں ہم آج کھڑے ہیں یہ ’’بیانیے‘‘ کا زمانہ ہے۔ وہ بیانیہ جو سوشل میڈیا کے ذریعے اس نوجوان نسل میں پھیلایا جاتا ہے جو مطالعے سے تو ویسے بھی عاری ہے مگر تاریخ سے تو اس قدر کوری ہے کہ جب بیانیہ باز یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے تو کہا تھا کہ افغان جہاد کی آگ ہمارا اپنا گھر جلا دے گی تو یہ نسل آگے سے یہ نہیں پوچھتی کہ گھر تو ہمارا افغان جہاد شروع ہونے سے پہلے بھی ستائیس سال تک افغانستان کے راستے جلایا جا رہا تھا تب کونسا ضیاء الحق، اختر عبدالرحمن، حمید گل یا افغان جہاد چل رہا تھا ؟ فیلڈ مارشل ایوب خان جیسے فوجی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے جمہوری دونوں ہی طرح کے حکمرانوں کو بلوچستان میں فوجی آپریشنز کیوں کروانا پڑے تھے ؟ ایوب خان کا دور تو بہت پرانی بات ہوجاتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو والا ملٹری آپریشن تو افغان جہاد کے باقاعدہ آغاز سے سات قبل شروع ہوا جسے جنرل ضیاء نے 1978ء میں بند کیا۔ کیا وہ ملٹری آپریشن ان بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف نہیں تھا جن کے ٹریننگ سینٹر اور کیمپ افغانستان میں چل رہے تھے ؟ کیا وہ بلوچ اور پشتون عسکریت پسند پاکستان میں بم حملے نہیں کر رہے تھے ؟ کیا ان بموں سے آگ کی جگہ پھول برستے تھے ؟ پاکستان اور افغانستان کے مابین جاری کشیدگی میں جہاد افغانستان اس کشیدگی کے ستائیسویں سال رونما ہونے والا ایک واقعہ ہے جو اگلے دس سال جاری رہا۔ اور جسے مکر و فریب سے کام لیتے ہوئے ایک جعلی بیانیے کی مدد سے تمام فساد کی جڑ بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ جہاد بھٹو صاحب کی جانب سے افغانستان کی ستائیس سالہ دہشت گردی کا جواب تھا۔ فساد کی جڑ افغان جہاد نہیں بلکہ افغانستان کا وہ موقف ہے جو اس نے پاکستان کے خلاف 1947ء میں ہی اختیار کر لیا تھا اور جس کی بنیاد پر اس نے اقوام متحدہ میں پاکستانی ممبرشپ کے خلاف ووٹ دیا تھا اور ایسا کرنے والا وہ واحد ملک تھا۔ چلئے کچھ دیر کو مان لیا کہ فساد کی جڑ افغان جہاد اور وہ افغان پالیسی تھی جو بھٹو صاحب نے تشکیل دی، جنرل ضیاء نے آگے بڑھائی اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جس میں طالبان والا تڑکا لگایا ۔ آج کی تاریخ میں تو وہ افغان پالیسی کسی پرانے گودام میں پھینکی جا چکی۔ اب تو پاکستان کی سویلین و عسکری قیادت آئے روز افغان طالبان کے حملوں کی مذمت اور افغان حکومت سے اظہار یکجہتی کرتی نظر آتی ہے۔ اسی یوٹرن کے دوران دوسرے طالبان سربراہ ملا منصور پاکستانی سر زمین پر مارے جا چکے ۔ اس کے باوجود افغان حکومت کی پاکستان دشمنی ختم ہونے کا نام کیوں نہیں لیتی ؟ پولیس افسر طاہر داوڑ اسلام آباد سے اغوا ہوکر جلال آباد کیسے پہنچ گئے اور وہاں سے دریافت ہونے والی اس سرکاری افسر کی لاش افغان حکومت پاکستانی حکومت کے بجائے محسن داوڑ کو دینے پر ہی کیوں مصر رہی ؟ اس موسم سرما کی کسی ٹھنڈی رات میں کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے پہلے اس حقیقت پر غور کیجئے کہ پاک افغان تعلقات کے تین ادوار ہیں۔ ایک افغان جہاد سے قبل کا دور، دوسرا افغان جہاد کے آغاز سے لے کر نائن الیون تک کا دور اور تیسرا یہ موجودہ دور۔ جہاد افغانستان سے قبل کے ستائیس سالوں میں ہم افغان دہشت گردی کا شکار رہے جس میں افغانستان کو ہمارے خلاف بالادستی حاصل تھی۔ جہاد افغانستان کے آغاز سے لے کر نائن الیون تک کے عرصے میں بھٹو اور ضیاء الحق کی افغان پالیسی کی مدد سے ہماری بالادستی قائم ہوئی اور افغانوں کا جنازہ نکل گیا۔ اور اس کے بعد ذرا انصاف سے بتائیں کہ بھٹو اور ضیاء کی افغان پالیسی ترک کرنے کے نتیجے میں ایک بار پھر افغانستان کو وہی بالادستی میسر نہیں آگئی جو اسے افغان جہاد سے قبل حاصل تھی ؟ اور بالادستی بھی اس درجے کی کہ وہ اسلام آباد سے ہمارا پولیس افسر اٹھا کر لے گئے اور ہمارے ادارے سوتے رہ گئے۔ کیا بھٹو اور ضیاء والی پالیسی کے دور میں افغان حکومت بنوں سے کوئی مرغی بھی اٹھا کر لے جانے کی کبھی جرأت کر پائی تھی ؟