چار پانچ سال پہلے پاک افغان میڈیا کوارڈی نیشن کے ایک پروگرام میں مجھے بھی شامل ہونے کا موقعہ ملا۔ دونوں طرف کے کئی سینئر صحافیوں کو ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کرنا تھا۔ پہلے سال پاکستانی میڈیا وفد نے کابل کا دورہ کیا، اگلے سال افغان جرنلسٹ اسلا م آباد آئے، تیسرے سال پھر ہم نے کابل کا دورہ کیا اور اس میں کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، جن میں افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی، حکومت میں شریک افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، جبکہ لیجنڈری تاجک گوریلا لیڈر احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ضیا مسعود اور رشید دوستم کے نائب سے بھی ملنے اور ان کے خیالات جاننے کا موقعہ ملا۔اشرف غنی اس وقت عبوری کونسل کے سربراہ تھے جبکہ عبداللہ عبداللہ حکومت سے باہر تھے۔ میڈیا چینلز کاوزٹ بھی شیڈول میں شامل تھا ، افغان صحافیوں ، ایڈیٹروں اور اینکروں کے ساتھ دو روزہ سمینار میں انٹرایکشن چلتا رہا۔ ایک شام مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوان افغان پروفیشنلز کے ساتھ رکھی گئی، اس میں خاصی کھل کر گفتگو ہوئی۔وہ کچھ جاننے کا موقعہ ملا، جو عام طور پر ممکن نہیں ہوپاتا۔ پچھلے چار پانچ برسوں میں صورتحال یقینا کچھ بدل گئی ہوگی، مگربعض بنیادی حقیقتیں پہلے جیسی ہیں۔ کابل کے بارے میںشدت سے یہ احساس پیدا ہوا کہ یہ اینٹی پاکستان شہر ہے۔ پاکستان کا نا م سنتے ہی غیر ہمدردانہ رویہ، طنزیہ مسکراہٹ، تیکھی نگاہوں سے واسطہ پڑتا۔ افغانستان مختلف ادوار میں سفر کرنے والے صحافی دوستوں کا کہنا تھا کہ یہ شہر ہمیشہ سے اینٹی پاکستان رہا ہے، مگر نائن الیون کے بعد اس کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔ دراصل افغانستان شہر میں تاجک آبادی زیادہ آباد ہے، پشتون شہر کے مضافات یا قریبی علاقوں میں مقیم ہیں۔افغان تاجک نائن الیون سے پہلے ہی پاکستان سے فاصلے پر تھے۔ ان کی سب سے بڑی جماعت جمعیت اسلامی ہے۔ اس کے بانی قائد پروفیسر برہان الدین ربانی ، مگراصل طاقت گوریلا کمانڈروادی پنج شیر کے احمد شاہ مسعودکے پاس تھی۔یاد رہے کہ پروفیسر ربانی افغان شہر بدخشاں کے تاجک تھے، جو پنج شیروالوں کی نسبت پاکستان کے حوالے سے معتدل سوچ رکھتے ہیں۔ احمد شاہ مسعود نے روس کے خلاف افغان جہاد میں بھی اپنا خاص قسم کا رویہ رکھا اور وہ پاکستانی اداروں سے نسبتاً فاصلے پر رہے، بعد میں ایک وقت ایسا آیا، جب ان کے کہنے پر اسلام آباد میں بچوں کی ایک بس اغوا کر لی گئی ، مشکل سے وہ مسئلہ حل کیا گیا۔ نصیر الدین بابر اس وقت وزیرداخلہ تھے، شائد اس کے بعد ہی انہوںنے ان جنگجو کمانڈروں کے خلاف کھڑے ہونے والے طالبان کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔طالبان دور میں یہ تمام تاجک، ازبک، ہزارہ لیڈر پسپا ہو کر افغانستان کے انتہائی شمالی کونے میں سمٹ گئے تھے، اس وقت وہ شمالی اتحاد کہلاتے تھے۔ احمد شاہ مسعود البتہ پنج شیر وادی کی پیالہ نما جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے ناقابل شکست رہے ۔نائن الیون سے صرف ایک ہفتہ قبل احمد شاہ مسعود پر ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں وہ ہلاک ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ القاعدہ نے الجزائی صحافیوں کو استعمال کر کے یہ حملہ کرایا۔ اس لئے کہ انہیں اندازہ تھا کہ نائن الیون کے بعد جوابی طور پر افغانستان پر امریکہ حملہ کر سکتا ہے، اس میں احمد شاہ مسعود جیسا شاطر گوریلا کمانڈر تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس حملے میں کسی پاکستانی جہادی تنظیم نے بھی حصہ نہیں لیا، تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑا،احمد شاہ مسعود کے قتل کا الزام پاکستان پر ہی عائد کیا گیا۔ نائن الیون کے بعد شمالی اتحاد اقتدار میں آ گیا ، تاجک بہت طاقتور ہوگئے ،اگرچہ حامد کرزئی کی صورت میں ایک پشتون صدر بنوا دیا گیا ۔تاجکوں کو احمد شاہ مسعود کی صورت میں ایک شہید ہاتھ آگیا، انہوں نے انہیں خوب گلوریفائی کیا۔ ہم کابل ائیرپورٹ پر احمد شاہ مسعود کی بڑی بڑی تصاویر دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ افغانستان کے ’’قائداعظم‘‘ہوں۔ائیرپورٹ لائونج میںصدر کرزئی کی ایک آدھ تصویر تھی، مگر ہوٹلوں اور اکثرمقامات پر احمد شاہ مسعود کی تصاویر دیکھنے کو ملتیں۔ پچھلی نشست میں تفصیل سے بیان کیا گیا کہ امریکہ نے ہزاروں افغان نوجوانوں کو تعلیمی وظائف دے کر مغربی ممالک میں بھیجا تھا۔واپسی پر یہ اہم ملازمتوں پر فائز ہوگئے، کچھ این جی اوز میں کھپ گئے۔ پڑھے لکھے افغانوںکی کمی اور حکومتی سٹرکچر میں خلاکی وجہ سے یہ نوجوان جلد ترقی کر کے ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈائریکٹر کے عہدوں تک پہنچ چکے تھے۔ یہ نئی افغان مڈل کلا س تھی جو امریکی قبضے کے دوران پیدا ہوئی ۔یہ اپنی بقا امریکہ کی افغانستان موجود رہنے میں دیکھتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے افغان جن میں اکثریت تاجک، ہزارہ یا ازبک تھے، ان کا کہنا تھا کہ آج ہم سینکڑوں، ہزاروں ڈالر تنخواہیں لے رہے ہیں، اچھے گھر ، گاڑیاں اور آسودہ لائف سٹائل ہے۔ طالبان آئے تویہ سب کچھ صفر ہوجائے گا۔یاد رہے کہ افغان تاریخ میں تاجک ازبک، ہزارہ کو’’ پاور کاریڈورز‘‘ میںکبھی اتنی زیادہ اور بھرپور نمائندگی اور جگہ نہیں ملی تھی۔ان تمام نان پشتون کمیونیٹیز کو اچھی طرح معلوم تھا کہ طالبان کا طرز زندگی بالکل مختلف ہے اور ان کے آنا ریورس گئیر لگا دے گا۔یہ خوف انہیں پاکستان سے نفرت اور ناپسندیدگی پر اکساتا تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان طالبان کی حمایت نہ کرے تو وہ کبھی نہیں جیت سکتے ۔ یہ بات کتنی غلط ہے، کتنی درست، اس سے قطع نظر یہ سوچ پڑھے لکھے افغان نوجوانوں میں موجود ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے افغانستان میں لمبی چوڑی انویسٹمنٹ کر رکھی ہے، بہت سے لو گ ان کے پے رول پر ہوں گے۔ را نے افغان انٹیلی جنس کی تربیت بھی کی ہے۔ افغان میڈیا بھی اہم فیکٹرہے۔ افغانستان میں صنعتیں موجود نہیں، زراعت نہ ہونے کے برابر،کاروبارمحدود ہے۔ ہم نے کابل میں سب سے زیادہ بل بورڈ موبائل اور انٹرنیٹ کمپنیوں کے دیکھے۔ افغانستان میں درجنوں ٹی وی چینلز اور سو سے زیادہ ایف ایم ریڈیو سٹیشن قائم ہیں، کئی اخبارات بھی شائع ہو رہے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری چلتی ہی اشتہارات پر ہے۔ اشتہار کے بغیر دنیا کا کوئی بھی میڈیا گروپ، اخبار، چینل ، ایف ایم سٹیشن نہیں چل سکتا۔ افغانستان میں ایڈورٹائزنگ بجٹ اتنا کم ہے کہ وہ موجودہ میڈیا کے بیس فیصد کو بھی نہیں چلا سکتا۔ پھر اتنی بڑی تعداد میں افغان میڈیا ہائوسز کیسے چل رہے ہیں؟ کابل میں مختلف ذرائع سے پتہ چلا کہ یہ سب کہیں نہ کہیں سے فنانس ہو رہے ہیں۔ بعض کو بھارت، چند ایک کو ایران جبکہ بیشتر چینل امریکی اور یورپی این جی اوزوغیرہ سے فنانس ہو رہے ہیں۔ظاہر ہے یہ سب جہاں سے لیتے ہیں، ان کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھائیں گے۔ ان سب میں ایک چیز مشترک ہے، وہ پاکستان دشمنی اور مخالفت۔ یہ وہ پروپیگنڈہ ہے جو عام آدمی پراثراندازہوتا ہے۔ اگلے روز برطانیہ سے ایک دوست نے فون کرکے دلچسپ تفصیل بتائی۔ وہ ایک غیر ملکی کمپنی میں ملازمت کی وجہ سے دو سال کابل بھی رہے، ویسے پشتون اور پشاور کے رہائشی ہیں۔ کہنے لگے کہ مجھے تو یہ فلسطین، اسرائیل جیسی کبھی نہ ختم ہونے والی نفرت اور ناپسندیدگی معلوم ہوتی ہے۔ بتانے لگے کہ ان کی والدہ برطانیہ میں پشتو زبان کی ٹرانسلیٹر کے طور پر کام کرتی ہیں، انہیں ہسپتال سے کال آئی،ایک افغان خاتون وہاں بچہ پیدا کرنے آئی تھی، مگر زبان نہ جاننے کے باعث بات سمجھانی مشکل تھی۔ یہ وہاں گئیں۔ افغان عورت کو جیسے پتہ لگا کہ پاکستانی خاتون آئی ہے، وہ چیخنے چلانے لگی کہ اسے دور ہٹائو ، یہ میرا بچہ مار دے گی۔ یہ وہ نفرت اور تلخی ہے جو مختلف وجوہات اور خاص کر میڈیا کے باعث عام افغان کے ذہن میں انڈیل دی گئی ہے۔ اس میںکچھ حصہ طالبان کے کابل پر حملوں اور بم دھماکوں کا بھی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں ان حملوں سے نہتے عوام، عورتیں بچے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اس کا جذباتی ردعمل آنا فطری امر ہے۔ بعض حملے داعش کر تی ہے، وہ بھی افغان طالبان کے کھاتے میں پڑ جاتے ہیں۔ افغان حکمرانوں کا رویہ بھی اثراندازہوتا ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے ایک بار واقعہ سنایا کہ پروفیسر برہان الدین ربانی مثال دیتے کہ افغانستان ایک پیالے کی مانند ہے، جسے بادشاہ کا ہاتھ سنبھال سکتا ہے، ربانی صاحب کا کہنا تھا کہ افغان عوام اپنی رائے بنانے سے پہلے اپنے حکمرانوں کو ضرور دیکھتے ہیں۔افغانستان میں خیالات اوپر سے نیچے سفر کرتے ہیں۔ان دنوں حامد کرزئی کے پاکستان کے ساتھ نسبتاً خوشگوار تعلقات چل رہے تھے، قاضی صاحب مسکرا کر کہنے لگے کہ آج کل کابل میں بھی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ تھما ہوا ہے، میڈیا بھی کچھ احتیاط کر رہا ہے، اس لئے پاکستانی حکومت کو افغان حکومت کے ساتھ معاملہ بہتر رکھنا چاہیے کہ اس کا اثر عوام پر بھی پڑتا ہے۔ قاضی صاحب مرحوم کا مشورہ درست تھا، مگر جب افغان حکومت کٹھ پتلی ہو اور افغانستان ایک طرح کی ٹرانزیشن سے گزر رہا ہو،تب یہ ممکن نہیں۔ طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کامیاب ہوئے تو موجودہ افغان حکومت کو جانا پڑے گا۔ جو بھی نیا سیٹ اپ بنے، وہ کم ازکم ویسا نہیں ہوگا جو آج ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں افغان حکومت، اشرافیہ، مفاد یافتہ مڈل کلاس، فارن ایجنڈے پر چلنے والا میڈیا، مغرب سے فنڈنگ لینے والی این جی اوز وغیرہ کا سب کچھ ہی دائو پر لگا ہے۔ ان کے تمام تر غصے، نفرت اور فرسٹریشن کا ہدف پھر پاکستان اور پاکستانی عوام ہی بنتے ہیں۔