وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے نئی امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان سے دو طرفہ تعلقات کو نئی بنیاد پر استوار کرنے پر غور کرے۔ معاون خصوصی برائے قومی سلامتی کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکہ سے ایسے تعلقات کا خواہاں ہے جو علاقے کے دوسرے ممالک میں امریکی مفادات کے تابع نہ ہوں۔ یہ بجا ہے کہ ماضی میں پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات ایک طویل عرصہ تک افغانستان کے تناظر میں دیکھے جاتے رہے ہیں۔ افغانستان سے پہلے دو طرفہ تعلقات کی بنیاد کیسے رکھی گئی اس کا پتہ قیام پاکستان کے وقت امریکی وزیر خارجہ جارج مارشل کا پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر بھیجے گئے پیغام سے چلتا ہے۔ جارج مارشل کہتے ہیں: ’’دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے موقع پر میں آپ کو اور اسمبلی کے دیگر اراکین کو امریکی عوام اور حکومت کی جانب سے نیک خواہشات کا پیغام بھیج رہا ہوں کہ آپ جو کام آج شروع کر رہے ہیں وہ بخوبی انجام پا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پاکستانی عوام اور دنیا کے سامنے جو آئین رکھیں گے وہ پاکستانی قیادت کی جمہوریت اور آئین سے وابستگی کا ثبوت ہو گا اور ایسی دستاویز ہو گا جسے بنیاد بنا کر آپ کے نئے ملک کے عوام سیاسی اور سماجی ترقی کی راہ پر چل سکیں گے۔ آپ کی کارروائی کو امریکی عوام اور دنیا بھر میں آزادی سے پیار کرنے والے گہری دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ ابتدا میں یہ تعلقات سماجی اور سیاسی سطح پر پروان چڑھے۔ سرد جنگ کا زمانہ تھا امریکہ کو جنوب مشرقی ایشیا میں ایسے اتحادی کی ضرورت تھی جو سوویت یونین کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ تھا کہ تقسیم کے وقت بھارت نے اسے حصے کے اثاثے منتقل نہ کئے جس سے غذائی اشیا اور مالیاتی معاملات میں مسائل سامنے آنے لگے۔ امریکہ نے بلا معاوضہ گندم پاکستان بھیجی اور پھر ان تعلقات کو غیر محسوس انداز میں دفاعی سطح پر لے گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سیٹو و سینٹو معاہدوں پر دستخط کر کے پاکستان کو مکمل طور پر امریکی کیمپ کا حصہ بنا دیا۔ امریکہ ذرائع پیداوار اور ٹیکنالوجی کی بجائے روپیہ فراہم کرتا ہے‘ یہ فنڈز سود سمیت واپس مل جاتے ہیں۔ امریکہ اپنے اثرورسوخ کے ذریعے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے فنڈز جاری کروا کر مدد کرتا ہے۔ دوسری طرف سوویت یونین بلاک تھا جو وسائل سے مشترکہ استفادے کے اصول پر کاربند تھا۔ پاکستان نے آخری بڑی جنگ 1971ء میں بھارت کے ساتھ لڑی اس جنگ میں پاکستان کے سیاسی استحکام اور مالیاتی وسائل کو شدید نقصان پہنچا۔ امریکی تعاون کے باوجود مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ 1978-9ء میں افغانستان پر سوویت یونین کی یلغار نے امریکہ اور پاکستان کو باہمی تعلقات کے لئے نئی بنیاد فراہم کی۔ بلا شبہ یہ بنیاد اگلے چالیس برس تک اہم رہی۔ امریکہ جو جنگ دنیا کے کسی محاذ پر نہیں جیت سکتا تھا وہ پاکستان کی مدد سے افغانستان میں جیت لی۔ اس جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے اور دیگر دفاعی آلات فراہم کیے‘ افغان جہادکے باعث پاکستان کو موقع ملا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو مکمل کر سکے۔ جونہی سوویت یونین منہدم ہوا امریکہ اجنبی بن کر واپس چلا گیا۔ امریکہ کی حکمت عملی کے باعث جہادی تنظیمیں اور گروپ بیکار ہو کر ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ ان میں سے کچھ جنگجو گروپوں کو فرقہ واریت پھیلانے والوں اور کچھ کو دہشت گرد عناصر نے اپنا ساتھی بنا لیا۔ یہ پاکستان تھا جس نے افغان جہاد کے باقی ماندہ عناصر کو ایک نظام کا حصہ بنانے میں مدد دی تاکہ دنیا میں بدامنی پیدا نہ ہو۔ نائن الیون کو امریکہ ایک بار پھر پاکستان کے تعاون کا خواہا ںہوا۔ امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان سے زمینی و فضائی راستہ طلب کیا گیا۔ کئی انٹیلی جنس آپریشن پاکستان کی مدد سے ہوئے۔ اوبامہ صدر منتخب ہوئے تو ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ روز درجنوں افغان اور پاکستانی شہری ان کے میزائلوں کا شکار ہوتے۔ امریکی حکام نے تواتر سے پاکستان کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سارا مسئلہ خود امریکہ کا پیدا کر دہ ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے تو دو طرفہ تعلقات کے تمام روزن بند کر دیے۔ پاکستان سے رابطے فقط افغان تنازع کی حد تک کھلے رکھے گئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان پر امریکہ نے کئی تجارتی پابندیاں لگا رکھی ہیں‘ امریکی کمپنیوں کو ایف سولہ طیاروں اور دیگر آلات کے پرزے پاکستان کو فراہم کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے اربوں ڈالر روک رکھے ہیں۔ امریکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو اہمیت دے رہا ہے۔ کشمیر کے تنازع پر امریکہ بھارت کے جابرانہ اقدامات کی مذمت تک کرنے کو تیار نہیں۔ اس صورت حال نے پاک امریکہ تعلقات کو تاریخی طور پر نچلی ترین سطح پر دھکیل دیا ہے۔پاکستان تزویراتی اہمیت والے علاقے میں واقع ہے۔پاکستان سے اچھے تعلقات صرف دفاعی لحاظ سے نہیں بلکہ اقتصادی اعتبار سے بھی دنیا کے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کی نئی حکومت نے اپنی صفوں میں انتہا پسندوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی نژاد افراد کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ بائیڈن بدلتی دنیا میں مستحکم‘ جمہوری اور امن کے خواہاں پاکستان کی اہمیت سے واقف ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں خطے کے دیگر ممالک میں امریکی مفادات سے الگ کر کے بہتری لائی جائے تو پاکستان کی نئی حکمت عملی سے ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔ اس سے باہمی تعلقات میں آنیوالا اتار چڑھائو روکا جا سکے گا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی ضروریات کو اچھے طریقے سے سمجھ سکیں گے۔