تہران میں وزیر اعظم عمران خان اور ایرانی صدر حسن روحانی کی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس دو طرفہ جامد تعلقات میں مثبت تبدیلی کی خبر دیتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبل اورماڑہ میں 14پاکستانیوں کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ فوجی جوانوں اور عام شہریوں نے 70ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ اب پاکستان نے طے کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر کسی تشدد پسند گروہ کو رہنے کی اجازت نہیں دے گا۔ وزیر اعظم نے ایرانی صدر کے تحفظات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے کئی بار پاکستان کے سرحدی علاقوں میں چھپے مسلح گروپوں کے ہاتھوں نقصان اٹھایا ہے۔ اس مسئلے پر دونوں ممالک کے سکیورٹی چیف تبادلہ خیال کر کے شکایت سے پاک نظام تشکیل دیں گے۔ وزیر اعظم نے دوطرفہ تعلقات میں موجود بداعتمادی کو ختم کرنے اور افغانستان کے سیاسی تصفیے کے معاملے پر بھی ایرانی قیادت کے ساتھ بات کی۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، گولان کی پہاڑیوں پر قبضے اور بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے تنازع کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق طے کرنے کی بات کی۔ اسی طرح انہوں نے ایران میں بنیادی صحت کے نظام کو دنیا میں بہترین قرار دے کر اس سے فائدہ اٹھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ایرانی صدر نے اس موقع پر کہا کہ کوئی تیسرا ملک پاک ایران تعلقات پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران طے پانے والے امور کا ذکر کرتے ہوئے صدر حسن روحانی نے دوطرفہ تجارت، پاک، ایران اور ترکی تعاون کو فروغ دینے، سرحدی امور اور گیس منصوبے کی بابت حوصلہ افزا باتیں کیں۔ پاک ایران تعلقات کو دونوں جانب سرحدی علاقے میں چھپے ان مسلح گروہوں سے خطرہ رہا ہے جو سرحد عبور کر کے حملے کرتے ہیں اور پھر ان حملوں کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے۔ کئی بار دہشت گرد گروپوں نے ان حملوں کو مشرق وسطیٰ میں ایران سعودی عرب کشمکش کے ساتھ جوڑ کر پاکستان کو فریق بنانے کی سازش کی۔ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے اس امر سے واقف ہیں کہ بعض علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے تعلقات کشیدہ بنانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ جہاں امریکہ اپنے کسی اتحادی کو ایرانی منڈی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہتا ہے وہاں وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت ایران سے سستا تیل اور گیس خرید رہا ہے، ایران کے ساتھ تجارت کر رہا ہے مگر اس پر کوئی اعتراض نہیں جبکہ پاکستان توانائی کی شدید قلت کے باوجود اپنے ہمسایہ دوست ملک سے تیل و گیس کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا۔ چھ سال قبل پاکستان اور ایران نے مشترکہ گیس پائپ لائن منصوبہ شروع کیا تھا جو ابھی تک ادھورا ہے۔ اس پائپ لائن کی تعمیر کا مطلب پاکستان کی توانائی ضروریات کا پورا ہونا اور ایران کا عالمی تجارت میں متحرک ہونا ہے۔ دونوں ہمسایہ ملک اپنی بہت سی ضروریات ایک دوسرے سے پوری کر سکتے ہیں۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، صنعت، تجارت، توانائی اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کی بہت گنجائش ہے۔ ایران فلسطینیوں کے حق میں بلند ہونے والی مضبوط آواز ہے۔ اسرائیل ایران کی اس آواز کو ہمیشہ اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے جس طرح فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اس پر ایران اور پاکستان کا مؤقف ایک سا ہے۔ گزشتہ دنوں صدر ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کر کے قابل مذمت فیصلہ کیا۔ قبل ازیں وہ عالمی برادری کی مخالفت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر چکے ہیں۔ پاکستان اس معاملے کو عالمی اصولوں سے روگردانی، مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی اور فلسطینیوں پر مظالم تصور کرتا ہے جو ایرانی مؤقف سے ہم آہنگ ہے۔ صدر حسن روحانی متعدد بار کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی مذمت فرما چکے ہیں۔ اس طرح دونوں ملکوں کے مابین خطے کے تنازعات کے متعلق یکساں خیالات موجود ہیں۔ تیسرا مسئلہ افغانستان ہے جس کی ساٹھ لاکھ کے قریب آبادی اب بھی پاکستان اور ایران میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بجا فرمایا کہ دونوں دوست ملک دہشت گردی، علاقائی تنازعات اور باہمی تجارت کے امور پر توجہ دیں تو ان کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ اس تبدیل ہوتی دنیا میں ریاستیں خود کو جھگڑوں اور تنازعات سے باہر نکال رہی ہیں۔ ہمارا ایک ہمسایہ چین ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ شروع کر چکا ہے۔ پاکستان سی پیک کے ذریعے اس منصوبے کا شراکت دار ہے۔ چین نے اپنے دور دراز علاقوں کی صنعتی پیداوار کو سی پیک کے ذریعے قلیل وقت میں نئی منڈیوں تک پہنچانے کا انتظام کر لیا ہے۔ اپنی عالمی تجارت کو بڑھانا ایران کی ضرورت ہے۔ کوئی ملک اس وقت تک تجارتی ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خوشگوار نہ ہوں۔ پاک ایران تعلقات کے دشمنوں نے صدر روحانی کا سابق دورہ پاکستان سبوتاژ کیا۔ اس بار وزیر اعظم عمران خان کے دورے سے اقتصادی و سٹریٹجک تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں روکنے کے لیے اورماڑہ جیسا واقعہ برپا کیا گیا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ایران ایسی مذموم کوششوں سے واقف ہے اور صدر حسن روحانی کی طرف سے یہ اعلان بہت اہم ہے کہ پاک ایران تعلقات کو کسی تیسرے ملک کی وجہ سے نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ امید ہے وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے بعد دونوں ملکوں کے حکام ایک دوسرے کے تحفظات کو سمجھتے ہوئے دوطرفہ تعاون کی نئی راہیں تلاش کریں گے۔