امریکی صدر کی پیر کو ہونے والی عمران خان سے ملاقات کا یک نکاتی ایجنڈا افغانستان اور طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر غورو فکر اور پاکستان کا تعاون تھا۔ مگر امریکی صدر کے پھوہڑپن کے باعث ملاقات کا اختتام پہلے سے تنائو کے شکار پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر ہوا۔ جس کے بعد ٹرمپ نے نئی دہلی کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن ہی نہ چھوڑا کہ وہ بھی عالمی رائے عامہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ کہے کہ ٹرمپ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ پہلے تو ٹرمپ نے یہ بڑھ ماری کہ وہ افغانستان کی 18سال سے جاری جنگ جیت سکتے ہیں، ایک ہفتہ پہلے کا ان کا ایک بیان اس قدر بے تکا اور مضحکہ خیز اور کم علمی پر مبنی تھا کہ اس کی تردید کرنا بھی ممکن نہیں۔ پھر وہ پاکستان اور بھارت کے معاملات میں کود پڑے جو پہلے ہی شدید تنائو کا شکار ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیرا عظم نریندر مودی نے ان کو پاکستان اور بھارت کے مابین ثالث کا کردار ادا کرنے کی دعوت دی ہے اور مودی نے ان کو مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس نے فوری طور پر بھارت میں ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے کیونکہ اس کا مطلب بھارت کا اپنے دیرینہ مؤقف سے دستبرداری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر کے حوالے سے کسی تیسری قوت کی مداخلت کی گنجائش نہیں۔ ہاں اس سے انکار نہیں کہ امریکہ کا شمار ان عالمی قوتوں میں ضرور ہوتا ہے کہ جو ماضی میں پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دہانے سے پیچھے لانے کے لیے کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ اس برس بھارت کارگل کی جنگ کے 20برس کی تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے جو پاکستان کی فوج کے کارگل میں بھارتی علاقے پر قبضہ کے بعد شروع ہوتی تھی۔ جب بھارتی فوج نے زبردست جوابی ردعمل دیا تو اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف امریکی صدر بل کلنٹن کے پاس مداخلت کے لیے چلے گئے تھے۔ ابھی حال ہی میں جب بھارت کی فضائیہ نے پاکستانی علاقوں پر بمباری کی تھی تب بھی کشمیر کے محاذ پر تنائو اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس وقت بھی ٹرمپ نے ٹویٹ کیا تھا۔ اس بار بھی جب دونوں جوہری ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے اس وقت بھی یہ ناقابل یقین تھا کہ بھارت جیسا کہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مودی نے کشمیرتنازع کے حل کے لیے عالمی ثالثی کی بات کی ہو۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ تو ممکن ہے کہ مودی نے ٹرمپ سے پاکستان کو دہشت گردی سے باز رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی ہو۔ جیسا کہ لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کرنے کا معاملہ ہے مگر یہ بات ناقابل یقین ہے کہ بھارت کا کوئی وزیر اعظم امریکی صدر کو کشمیر تنازع پر مذاکرات کی میز پر کرسی سنبھالنے کی دعوت دے۔ مودی سرکار جو قومیت کی دعویدار ہے اور ہندو توا کے کارڈ کو بھرپور انداز میں استعمال کر رہی ہے اس کے لیے تو بالکل ہی ممکن نہیں اس دعویٰ کی پہلے مرحلے میں تو فوری طور پر بھارت کے دفتر خارجہ نے تردید کر دی ہے۔ مگر شاید اس کے بارے میں اعلیٰ سطح پر تردید کی ضرورت ہے۔ شاید مودی کو خود اس کی تردید کرنا ہو گی۔ پارلیمنٹ کے اجلاس جاری ہے اور اجلاس میں اب یہ مسئلہ سرفہرست ہو گا۔ حالیہ متنازع بیان سے اورتو کچھ حاصل نہ ہو گا، البتہ بھارت اور امریکہ کے درمیان جاری تجارتی تنائو میں مزید اضافہ ہو گا۔اس بیان سے مودی حکومت خوش ہو گی ماضی کی حکومت نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے مغربی ممالک کے نقطہ نظر واضح کرنے میں بڑی محنت کی ہے۔ ٹرمپ نے ایک ہی میٹنگ میں افغانستان کے معاملے میں کسی قابل قدر کامیابی کے بغیر ہی بھارت سے دشمنی مول لے لی ہے۔ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کے معاملات سے لا علمی اور ٹرمپ انتظامیہ کی غیر سنجیدگی کے باوجود بھی واشنگٹن عمران خان کی آمد سے پہلے بھی پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ٹرمپ نے حافظ سعید کی گرفتاری پر ٹویٹ کیا تھا جو 2008ء کے ممبئی حملوں کے پشت پناہ تھے جس میں 160بھارتی مارے گئے جن میں 6امریکی بھی شامل تھے۔ حافظ سعید کی گرفتاری پر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا تھا کہ امریکہ کے دبائو کے نتیجے میں حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن انتخابات کے نتیجے میں عمران خان وزیر اعظم بنے ہیں ان میںہی حافظ سعید نے اپنی سیاسی جماعت بنائی تھی۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ حالیہ ملاقات کے بعد ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں پالیسی تبدیل ہو جائے گی وہ خام خیالی کا شکار ہیں۔ 2017ء میں ہی ٹرمپ نے پاکستان پر لفظی حملے کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف مہذب رویہ اختیار کرنا ہو گا تا کہ امن قائم ہو سکے انہوں نے ایئرلنگٹن بیس پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ امریکہ نے جن 20تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا ہے یہ تمام کی تمام پاکستان اور افغانستان میں موجود ہیں۔ انہوں نے پاکستان پر دہشت گردی کے پاگل پن کا الزام بھی لگایا تھا اور پاکستان کی امداد بھی روک لی تھی اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات تک امداد روکنے کا اعلان کیا تھا۔ مگر ٹرمپ کے حالیہ ریمارکس جو حافظ سعید اور کشمیر کے حوالے سے ہیں سے ان کا پھوہڑ پن عیاں ہو گیا ہے۔ انہوں نے امداد کی بحالی کا بھی عندیہ دیا ہے۔ یہ سارے حالات ٹرمپ کے بھلکڑ پن کی علامت ہیں جو ٹرمپ کی توجہ کے فقدان، سوچ کے تسلسل کے فقدان اور حالات سے آگاہی کے فقدان کی نشاندہی کرتے ہیں یا پھر ان کو بہتر انداز میں بریف نہیں کیا جاتا۔ یا پھر وہ بریفنگ کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام اقوام اپنے مفادات کے لیے اقدامات کرتے ہیں ٹرمپ نے اپنے ریمارکس میں اپنی کم فہمی اور پست ہمتی کا ہی مظاہرہ نہیں کیا بلکہ بھارت کے حوالے سے غیرمعقولیت کا مظاہرہ بھی کیا ہے جو اس بات کی عکاسی ہے کہ دنیا کی واحد سپر طاقت کے معاملات کس قسم کے شخص کے سپرد ہیں۔ (بشکریہ: واشنگٹن پوسٹ، ترجمہ: ذوالفقار چودھری)