پاکستان اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جو پارٹ ٹائم نہیں بلکہ سال کے 12 ماہ ایک دوسرے کے خلاف سرد اور نیم گرم جنگ میں مشغول رہتے ہیں۔ دونوں جانب کے انٹیلی جنس ادارے زندگی کے ہر شعبے میں ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے ایجنٹ رکھتے ہیں۔ نہ اس سرایت سے سیاستدان محفوظ ہیں اور نہ ہی دفاعی ادارے۔ نہ صحافی محفوظ ہیں اور نہ شاعر و ادیب۔ نہ گلوکار محفوظ ہیں اور نہ ہی ڈانسر و مصور۔ نہ سائنسدان محفوظ ہیں اور نہ ٹیچرز و پروفیسرز۔ نہ بزنس مین محفوظ ہیں اور نہ ہی تاجر اور آجر۔ اور یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ ٹھوس حقائق ہیں جن کا ادراک دونوں ہی ممالک کے دفاعی تجزیہ نگاروں کو بھی ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دونوں جانب کے سطحی ذہن رکھنے والے شہری ان باتوں کی حساسیت کو سمجھ نہیں پاتے اور وہ ان نازک معاملات پر غیر سنجیدہ رویہ اختیار کئے رکھتے ہیں۔ یہ غیر سنجیدہ رویہ پاکستان کا مسلمان تو افورڈ کر سکتا ہے کیونکہ مسلم ملک کا باشندہ ہے لیکن ہندوستانی مسلمان نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ایک ایسے ملک کا شہری ہے جو بظاہر سیکولر لیکن حقیقت میں ایک ہندو سٹیٹ ہے۔ نریندر مودی کو یہ داد دینی پڑے گی کہ وہ ہندوستان کا یہ منافقت والا چولہ اتار کر اسے ایک علانیہ ہندو سٹیٹ بنانا چاہتا ہے اور میں اس پر اس کا حامی ہوں کیونکہ یہ دو قومی نظریے کی بالادستی ہوگی۔ بھارت کے مسلمانوں کے حوالے سے پاکستان کے دفاعی ادارے جتنے حساس ہیں اتنے شائد خود ہندوستانی مسلمان بھی نہ ہوں۔ میری معلومات کے مطابق ہندوستان کے مسلمان کو محفوظ رکھنا اور پاک بھارت تنازعات کا اثر ان پر کم سے کم منتقل ہونے دینا پاکستان کی قومی دفاعی پالیسی کا پچھلے ستر سال سے نا قابل تبدیل حصہ ہے۔ اور نہیں تو کم سے کم یہی دیکھ لیا جائے کہ بھارت کی جن ریاستوں میں مسلمان واضح طور پر بڑی تعداد میں ہیں وہاں کے حوالے سے آج تک پاکستان پر یہ الزام خود بھارتی حکومت بھی نہ لگا سکی کہ وہاں کے کسی معاملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اگر پاکستان بھارت کے مسلمانوں کی سلامتی کا لحاظ نہ رکھتا تو یہ ریاستیں اس کے لئے بہت ہی پرکشش ہوتیں اور وہ وہاں بہت کچھ کر رہا ہوتا۔ جب دونوں ممالک کا مین سٹریم میڈیا دونوں ہی ممالک کے انٹیلی جنس نظام کی سرایت سے محفوظ نہیں تو وہ سوشل میڈیا کیسے محفوظ رہ سکتا ہے جہاں دونوں ممالک کی پبلک ایک دوسرے سے براہ راست رابطے میں ہے ؟ کچھ عرصہ قبل بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے طویل کمنٹ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بھارت کا مسلمان پاکستان کے مسلمان سے زیادہ محفوظ اور پرسکون ہے اور اس حوالے سے پاکستانی کسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے بہت ہی سطحی قسم کا ایسا تقابل پیش کیا جو بھارتی مسلمانوں کے ہندوستانی سیاست میں موقف کی ہی سراسر نفی اور ہندو موقف کی تائید تھی۔ یہ بحث کسی ایسے پاکستانی کے لئے سب سے مرغوب بحث ہو سکتی ہے جو بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار سے واقفیت رکھتا ہے لیکن اس کا نقصان ہندوستانی مسلمانوں کو لامحدود ہوگا کیونکہ ان کے انٹیلی جنس ادارے کیس ہی یہ قائم کریں گے کہ فیس بک پر پاکستان بھارت کے اندرونی مسائل کو چھیڑ کر بھارتی مسلمانوں کو ورغلا رہا ہے اور بعض ایسی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں جو کسی انڈین نے ہی دی ہوں گی اور وہ انڈین کوئی "غدار مسلمان" ہی ہو سکتا ہے۔ وہ یہ سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ بھارت کا ہندو تو پاکستان کے شہریوں سے فیس بک پر دوستی نہیں رکھتا پھر مسلمان کیوں رکھتے ہیں ؟ اور خود ہی جواب دیتے ہوئے کہیں گے کہ ہمارا مسلمان پاکستان کا وفادار ہے اور یہ پاکستان میں گہرے رشتے رکھنا چاہتا ہے اور فیس بک پر ان کی بے تکلف دوستیاں اس کا ثبوت ہیں۔ جہاں تک بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار کے موضوع کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بطور اشارہ صرف اتنا ہی دیکھ لیجئے کہ مسلمان بھارت کی کل آبادی کا 10.5 فیصد ہیں جبکہ بھارت کی قومی اسمبلی یعنی لوک سبھا میں مسلمان ارکان صرف 22 ہیں جو تاریخ کی سب سے کم تعداد ہے اور یہ تعداد تناسب کے لحاظ سے 4.2 فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی صرف 2 فیصد ہے لیکن پالیمنٹ میں ان کے 7 تو صرف وہ ارکان ہیں جو اقلیتوں کے لئے مخصوص سیٹوں پر آئے ہیں جبکہ براہ راست الیکشن لڑ کر آنے والے ان کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح انڈیا کی 10 لاکھ آرمی میں مسلمانوں کی تعداد صرف 29000 ہے جس کا تناسب صرف 3 فیصد بنتا ہے۔ اس میں بھی نصف تعداد جموں اینڈ کشمیر لائٹ انفینٹری کی ہے اگر متنازع علاقے کے ان سپاہیوں کو نکال دیا جائے تو خالص ہندوستانی مسلمان اپنی فوج میں صرف ڈیڑھ فیصد رہ جاتے ہیں اور اسی فوج میں افسران کا تناسب دیکھ لیا جائے تو بھارتی فوج میں مسلمان فوجی افسر صرف 2 فیصد ہیں۔ انڈین سول سروس میں مسلمان افسران کی تعداد بھی صرف 2 فیصد ہے جبکہ کلرکس میں یہ تعداد صرف ڈیڑھ فیصد رہ جاتی ہے۔ انڈین ایلیٹ سول سروس ایڈمنسٹریشن میں مسلمان افسران فقط 3 فیصد ہیں۔ یہ فقظ ایک ٹریلر ہی سمجھ لیجئے ورنہ اگر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے لے کر ہندوستان کے ہر سرکاری محکمے تک اور تجارت سے لے کر زمین اور جائدادوں کی ملکیت میں مسلمانوں کے حصے تک ایک ایک تفصیل نکال لی جائے اور تفصیل بھی وہ جو خود بھارتی رپورٹس کا حصہ ہے تو کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا کہ بھارت میں مسلمان کس حال میں جی رہے ہیں لیکن ان مباحثوں سے شائد ہماری انا کو تو تسکین حاصل ہوجائے مگر ہندوستانی مسلمان کو اس کا نقصان ہی ہوگا۔ سو عافیت اسی میں ہے کہ جب "برہمن سامراج" اپنی سیاسی و انتخابی ضرورت کے لئے کشیدگی کو ہوا دے تو ہندوستان کا مسلمان اس کا حصہ نہ بنے اور پاکستانی مسلمان بھی اس کا غصہ سوشل میڈیا پر موجود بھارتی مسلمان پر نہ اتارے !