پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کا ہاٹ لائن پر رابطہ ہواہے‘ جس میں دونوں ممالک نے کنٹرول لائن سیز فائر معاہدے پر سختی سے عملدرآمد پر اتفاق کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے ہاٹ لائن پر رابطے میں ایل او سی اور دیگر تمام سیکٹرز کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔غلط فہمیاں دور کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی۔ پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے مابین ہاٹ لائن پر ایک ایسے وقت میں رابطہ ہوا ہے جب گزشتہ ایک عرصے سے بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیاں سنگین حد تک بڑھ چکی تھیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین 2003ء میں اس وقت سیز فائر کا معاہدہ ہوا تھا، جب سابق وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی نے قوم سے خطاب کر کے بھارت کو جنگ بندی کی پیشکش کی‘ جسے بھارت نے خوش آئند قرارکیا اور فوری طور پر فائر بندی پر اتفاق کیا۔2014ء میں جب ایل او سیز فائر خلاف ورزیوں میں تیزی آئی، تب سے لے کر اب تک پاکستان نے ہر موقع پر صبر و تحمل سے کام لیا ،جس کا مقصد سرحد پر موجود عوام کے جان مال کی حفاظت تھا۔ دوسری جانب بھارت نے 2003ء سے لے کر اب تک 13ہزار 500مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ جن میں 310شہری شہید اور ایک ہزار 600زخمی ہوئے ہیں۔سیز فائر کی خلاف ورزیوں سے 90فیصد اموات صرف 2014ء سے 2021ء کے درمیان ہوئی ہیں۔ درحقیقت 2014ء سے جب مودی سرکار بر سراقتدار آئی تو اس نے کھل کر سرحد پر حالات خراب کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ پاکستان نے بھارت کے 2جہاز بھی مار گرائے اور اس کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا لیکن اس کے باوجود مودی کا جنگی جنون بے قابو رہا۔ 2003ء سے لے کر 2014ء تک گیارہ برسوں میں اتنی اموات نہیں ہوئیں، جتنی مودی سرکار کے صرف 7برسوں میں ہوئی ہیں۔ درحقیقت مودی حکومت سرحدوں پر حالات خراب کر کے اپنے عوام کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹانا چا ہتی تھی۔حال ہی میں جب بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے تب بھی مودی نے داخلی مسائل سے اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کی بھر پورکوشش کی،ویسے تو بھارت میں کسی بھی جماعت کی حکومت پاکستان کے خلاف بغض و عناد اور انتقام پر قائم ہوتی ہے۔ بھارت میں جب بھی الیکشن کا وقت آتا ہے۔ بارڈر پر گڑ بڑ شروع ہو جاتی ہے۔ مودی سرکار کے حالیہ الیکشن میں بھی حالات کافی کشیدہ تھے۔ مودی کابینہ کے وزیر دفاع اور آرمی چیف نے سرجیکل سٹرائیک کی باتیں بھی کیں لیکن پاکستان نے ہر موقع پر صبر و تحمل سے کام لیا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کو افہام و تفہیم کے ساتھ مسائل حل کرنے کی دعوت دی۔ مسئلہ کشمیر بھی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی تجویز رکھی، لیکن مودی نے کی خطے میں انتشار پھیلانے کی ہٹ دھرمی برقرار رہی۔ وزیر اعظم پاکستان نے سری لنکا کے دورے پر اس بات کا اعادہ کیا کہ ہمیں غربت کے خاتمے کے لئے یورپی یونین طرز پر علاقائی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا چاہیے کیونکہ ہمارے خطے میں بڑی غربت اور محرومیاں موجود ہیں۔ جب تک ان کا حل نہیں نکالا جائے گا، تب تک مسائل کو جڑ سے اکھاڑنا نامکمل ہو گا۔ مودی سرکار پاکستان کی پیشکش سے فائدہ اٹھا کر اپنے ملک میں غربت کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ اس سے قبل پاکستان نے بھارتی سکھوں کی دلجوئی کے لئے کرتار پور راہداری کو ازسرنو تعمیر کر کے اسے سکھوں کے لئے کھول دیا۔لیکن مودی حکومت نے سکھوں کو مذہبی فرائض ادا کرنے سے روک رکھا ہے، پاکستان نے اس کے علاوہ ملک بھر میں اقلیتوں کی مذہبی نشانیوں کی بحالی اور مرمت پر کام کیا۔ اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔ اس کے باوجود بھار ت کے کینہ پرور سیاستدان اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک بھارت تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کبھی مثالی ہو بھی نہیں سکتے۔پہلے بھی اس کا ذمہ داربھارت تھا۔ جس نے کئی مرتبہ پاکستان کی امن کی پیشکش کو ٹھکرایا ہے‘2003ء میں اگر پاکستانی وزیر اعظم سیز فائر کی پیشکش نہ کرتے تو حالات جوں کے توں ہی رہتے۔ اس سے قبل بھی جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب جنگ کے بادل سروں پر منڈلا رہے تھے تب بھی کرکٹ ڈپلومیسی پاکستان نے شروع کی۔ بعدازاں پرویز مشرف کے دور میں بھی پاکستان نے اپنے موقف میں لچک دکھائی۔ اب بھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کئی مرتبہ بھارت کو پیشکش کر چکے ہیں لیکن بھارت نے ہمیشہ راہ فرار اختیار کی۔ ڈی جی ایم اوز کا ہاٹ لائن پر رابطہ دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ اس لئے دونوں ملک اس سے فائدہ اٹھا کر اسے موثر بنانے کی کوشش کریں۔ اگر سرحدوں امن ہو گا تو ہی دونوں ملک داخلی مسائل حل کر سکیں گے۔ نریندر مودی وزیر اعظم عمران خان کی پیشکش سے فائدہ اٹھا کر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے اور تجارت سمیت تمام مسائل کے حل لیے آگے بڑھیں اور2003ء والی انڈرسٹینڈنگ کے تحت ایل او سی پر حالات کو بہتر کریں۔50میٹر کی حدود میں نئی تعمیر اور ایک دوسرے کی چوکی کو براہ راست ٹارگٹ نہ کریںتو دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔