جب سے امریکہ میں صدر ٹرمپ کو الیکشن میں شکست ہوئی اور ڈیموکریٹ پارٹی کے جو بائیڈن صدر بنے‘ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلیاں آئی ہیں۔کورونا وبا کی تباہ کاریوں نے بھی بین الاقوامی سیاست کے خد وخال بدل کر رکھ دیے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا مثبت اثر پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر پڑا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مختصر وقفہ کیلیے جو سرد مہری آئی تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔ ایک بار پھر باہمی رشتہ میں گرمجوشی آگئی ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ گزشتہ ہفتہ چھ روزسعودی عرب میں گزارے، جو گہری باہمی مفاہمت کا مظہر ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سرکاری دورہ پر تین دنوں کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔ سفارتی اعتبار سے یہ بہت اہم واقعہ ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ اور عالمی سیاست میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ جو بائیڈن کی انتظامیہ آنے کے بعد سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں آئی ہیں ۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے صدر ٹرمپ سے گہرے دوستانہ تعلقات تھے لیکن بائیڈن سے نہیں ہیں۔بائیڈن انتظامیہ نے ان سے تعلقات کارقائم رکھے ہیں لیکن انکی انتظامیہ محمد بن سلمان کو پسند نہیں کرتی۔صدر بائیڈن کا روّیہ ایران سے بھی مصالحانہ ہے جسے سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے ۔ بائیڈن ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے یمن جنگ میں سعودی عرب کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ متحدہ عرب امارات بھی یمن جنگ سے الگ ہوگیا ہے۔سعودی عرب کی جنوبی سرحدحوثیوں سے محفوظ نہیں۔جب یمن کے حوثیوں نے مارچ میں سعودی تیل تنصیبات پرڈرون اور میزائلوں کے ذریعے حملہ کرکے انہیں شدید نقصان پہنچایا تو امریکہ نے سعودی عرب کی مدد نہیں کی۔اس واقعہ سے بھی سعودی عرب کو اندازہ ہوگیا کہ اب وہ اپنے دفاع کے لیے صرف امریکہ پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ اسے اپنے دفاع کیلیے کسی اور قابل اعتماد ساتھی کی ضرورت ہے۔ سعودی عر ب کو تربیت یافتہ فوجی جوان اور افسروں کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو یہ خدمات مہیا کرسکتا ہے۔ پاکستان کے پاس ایک اعلی تربیت یافتہ فوج ہے اوروہ سعودیہ کو یہ مدد فراہم کرسکتا ہے۔ البتہ پاکستان کا تعاون صرف سعودی سرحدوں کے دفاع کی حد تک ہوسکتا ہے کہ ایران اور خطہ کے دیگر ممالک اسے اپنے لیے خطرہ نہ سمجھیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان توازن قائم رکھتے ہوئے سعودی عرب کے دفاع کو یقینی بنانا وہ کردار ہے جو پاکستان اور سعودی عرب کی تزویراتی شراکت کی اہم بنیاد ہے۔ باقی معاملات اہم ہیں لیکن ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف‘ پاکستان کیلیے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے نکل رہی ہیں۔ چار ماہ بعد گیارہ ستمبر تک یہ عمل مکمل ہوجائے گا۔ افغانستان میںخانہ جنگی ہر آئے دن شدید تر ہوتی جائے گی۔نئی صورتحال میں افغانستان کی معاشی امداد کرنے میں سعودی عرب کا کردار اہم ہوگا۔ پاکستان کو اپنے سدا بہارمعاشی بحران پر قابو پانے کیلیے سعودی عرب سے مالی تعاون بھی درکار ہے۔دو برس پہلے سعودی عرب نے پاکستان میں اکیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارداہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن یہ کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ جلد ہی مقبوضہ کشمیر کے حالات خراب ہوگئے ۔ بھارت نے کشمیر کا خصوی آئینی درجہ ختم کردیا۔ پاکستان نے اس معاملہ پر اسلامی سربراہی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے اوراس بھارتی اقدام کے خلاف قرارداد منظور کرنے کا مطالبہ کیا تو سعودی عرب نے اسے پذیرائی نہیں بخشی۔ باہمی تعلقات میںسرد مہری آگئی۔ اب آثار بتاتے ہیں کہ پاکستانی قیادت نے اس بات کو قبول کرلیا ہے کہ کشمیر کے معاملہ پر عرب ملکوں سے حمایت کی توقع کرنا حقیقت پسندانہ اپروچ نہیں ہے۔ ان ملکوں کے بھارت سے گہرے معاشی تعلقات ہیں جنہیں وہ کشمیر تنازعہ کی نذر نہیں کرنا چاہتے۔عملیت پسندی کا تقاضا ہے کہ ہمیں عرب ملکوں سے تعلقات کو بھارت سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔ ہمارے لاکھوںلوگ سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں میں ملازمت کرتے ہیں اور اربوں ڈالر سالانہ زرمبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں جو ہماری معیشت کی لائف لائن ہے ۔ ماضی میں پاکستانی حکمران اور طاقتور شخصیات سعودی عرب کے شاہی خاندان سے ملک و قوم کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدے اُ ٹھانے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے میں دلچسپی لیتے رہے۔ کوئی وہاںبرسوں شاہی محل میں مہمان بنا رہا۔ کسی نے بادشاہ سے بھاری رقم لیکر لندن میںمہنگا گھرخرید لیا۔کوئی لاکھوں ریال تنخواہ پر وہاں جا کر ملازم ہوگیا۔ امید ہے اس بارپاکستان کی سعودی عرب سے جو شراکت داری ہونے جارہی ہے اس میں حکمران ذاتی مفادات اور ملازمتیں لینے کی بجائے ملک و قوم کے لیے بڑا فائدہ حاصل کریں گے۔ کسی ملک کے دفاع اور سلامتی میں اسکی بھرپور مدد کرنا بہت بڑا کام ہے۔ سعودی عرب امریکہ سے دس برسوں میں ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا جدید ترین اسلحہ خرید چکا ہے اور سینکڑوں ارب ڈالر کا برطانیہ سے۔پھر بھی وہ اپنا دفاع خود سے کرنے کے قابل نہیں۔ پاکستان اسکی سلامتی میں اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں بھی بحیثیت قوم اِس تعاون کے عوض پُورا پُورا فائدہ اُٹھانا چاہیے۔مفاد چند بڑے لوگوں کو نہیں پوری قوم کو ہونا چاہیے۔ پاکستان کو سعودی دفاع کو یقینی بنانے کے بدلہ میں مونگ پھلی کے دانوں اور جذباتی باتوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں سعودی عرب سے کم سے کم پانچ ارب ڈالر سالانہ کی گرانٹ لینی چاہیے جس سے ہم اپنے ملک میں صنعت کاری کرسکیںاور ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے۔ سعودی حکومت کے لیے یہ بڑی رقم نہیں ہے ۔قوموں کے تعلقات میںجذبات نہیں مفادات کی اہمیت ہوتی ہے۔ جیسا کہ کشمیر کے معاملہ پر سب عرب ملکوں نے اسکا عملی مظاہرہ کیا۔