گزشتہ جمعرات کے روز دفتر سے چھٹی تھی مگر برطانیہ کے تین بڑے اخبارات گارڈین، ڈیلی میل اور انڈیپنڈنٹ سے وابستہ جوناتھ سٹیل، کم سین گپتا اور امانڈا کوکلے نے آفس آنا تھا، ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور سی پیک کے تناظر میں خطے میں رونما اہم تبدیلیوں پر مکالمہ ہونا تھا۔ آخری وقت بتایا گیا کہ وفد پہلے سے کچھ مصروفیات میں الجھ کر تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ انہیں اسلام آباد روانہ ہونا تھا سو یہ مکالمہ نہ ہوسکا۔ کم سین گپتا کے کئی کالم ہم نے ترجمہ کر کے 92 نیوز میں شائع کئے ہیں۔ افسوس رہے گا کہ بین الاقوامی تنازعات کی رپورٹنگ میں ماہر ان سینئر صحافیوں سے ملاقات نہ ہوسکی۔اس دوران خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ایک بار پھر جائزہ لینے کے لیے کچھ باخبر حلقوں سے بات کرنے کا موقع ملا۔ وزیراعظم عمران خان نے جب اقتدار سنبھالا اور ملکی معیشت کی پتلی حالت کا انہیں کچھ اندازہ ہوا تو انہوں نے برسوں پرانی اپنی منصوبہ بندی کے تحت تارکین وطن کی ترسیلات کے ذریعے ڈالر منگوانے کا اعلان کردیا۔ عمران خان کو خوش فہمی تھی کہ ان کے کہنے پر کھرب پتی افراد اپنی دولت کا معمولی حصہ پاکستان میں لے آئیں گے۔ ان کی نشری تقریر میں کی گئی اپیل غیر موثر رہی تو وزیراعظم نے سعودی عرب، قطر اور چین کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنا شروع کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ دوست ممالک تبدیل ہوتی دنیا میں نئے باہمی مفادات تخلیق کرنے میں مددگار ہوں گے۔ عمران خان کے دورہ سعودی عرب ایسے وقت میں ہوا جب میاں نوازشریف کی ڈیل کے ذریعے ضمانت پر رہائی کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی مہم بلاروک ٹوک جاری تھی جس میں نوازشریف کی رہائی کے بدلے سعودی عرب سے دس ارب ڈالر ملنے کی بات کی جا رہی تھی۔ جو لوگ اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ اب نوازشریف کی سعودی عرب کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں وہ بھی دس ارب ڈالر نہ سہی چند ارب ڈالر کی سعودی امداد یا سرمایہ کاری کے بارے میں پر یقین تھے۔ یہ امید اس وجہ سے بہت بلندیوں پر تھی کہ عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی مسلسل دو روز سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا گرم جوش فون آیا، تیسرے روز ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے وزیراعظم کو مبارکباد دی، چوتھے روز گورنر تبوک نے ٹیلیفون کر کے مبارکباد پیش کی۔ اس سے تاثر پیدا ہوا کہ سعودی حکومت کی طرف سے عمران خان کو دورے کی دعوت کے دوران پاکستان کو آئی ایم ایف سے بچانے پر کچھ اشاروں کنایوں میں بات ہوئی ہوگی۔ وزیراعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ سعودی حکومت نے روایتی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔ نہایت خوشگوار ماحول میں ملاقاتیں ہوئیں، جانے کیوں ہماری اطلاعاتی مشینری نے دس ارب کی توقعات کو اپنے بیانات کے ذریعے بیدار کردیا۔ چند روز بعد معلوم ہوا کہ سعودی بھائیوں نے مالیاتی تعاون کے بدلے ایسی شرائط رکھ دی تھیں جو پاکستان پوری نہیں کرسکتا۔ یہ شرائط کیا ہوسکتی ہیں؟ یمن میں فوج بھیجنا، ایران کا محاصرہ کرنے میں تعاون اور ممکن ہے کچھ شرائط ٹرمپ نے سعودی عرب کے توسط سے پہنچائی ہوں۔ یہ شرائط دراصل پاکستان کی وہ دفاعی، تیکنیکی اور سفارتی طاقت ہے جس کے خلاف بھرپور عالمی پروپیگنڈے کے باوجود یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان جنوب ایشیا اور مغربی ایشیا کے معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے سعودی شرائط سے معذرت نے ہماری سٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات ڈالے، روپے کی قدر گر گئی۔ کچھ حلقے اسے پاکستان پر نیا دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں عالمی سرمایہ کاری کانفرنس ہورہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو شاہ سلمان نے شرکت کی دعوت دی ہے۔ اس بار دونوں ممالک اپنی اپنی نئی مذاکراتی پوزیشن پر رہتے ہوئے زیادہ حقیقی انداز میں ایک دوسرے کے سامنے اپنی ضروریات رکھیں گے۔ میرا تجزیہ کہتا ہے کہ پاک سعودی تعلقات اب مذہبی رشتے کے روایتی دائرے سے نکل کر دو ریاستوں کے مابین تجارتی تعلقات میں بدلنے جا رہے ہیں۔ امریکہ کا دبائو پاکستان اور سعودی عرب دونوں پر الگ الگ نوعیت کا ہے۔ آئندہ پاک سعودی ملاقاتوں میں دونوں ممالک اس دبائو کی شدت کم کرنے یا اس کی موجودگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں دریافت کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاک سعودی نئے تعلقات میں اس بات کو اہمیت دی جا رہی ہے کہ پاکستان میں وہ جماعتیں، گروہ یا شخصیات جو سعودی عرب سے کسی نہ کسی نوعیت کی مراعات اور فنڈز حاصل کرتے ہیں اور اپنی طاقت کو عوامی سطح پر بعض اوقات غلط طور پر استعمال کرتے ہیں ان کے متعلق سعودی عرب سے بات کی جائے۔ پاکستان کو سیاسی و معاشی استحکام کی طرف بڑھنے کے لیے ایسے پریشر گروپوں کوملنے والے ایندھن کی سپلائی منقطع کرنا ہوگی جو دو ملکوں کے درمیان تعلقات کے فروغ کی بجائے پاکستان میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوششوں میں شامل رہے ہیں۔ دو ریاستوں کے تعلقات مذہبی جماعتیں یا شخصیات نہیں چلاتیں، دونوں ممالک کے عوام مستحکم تعلقات کی ضمانت ہوتے ہیں۔ پاک ترک تعلقات عوامی سطح پر ہیں۔ اس لیے ان میں استحکام نظر آتا ہے۔ پاکستان کو انتظار ہے کہ سعودی بھائی امریکہ اور یورپ کی طرح پاکستان میں بھی کاروبار کے لیے تشریف لائیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے ممالک سے امریکہ کا تعارف اور سفارتی تعلقات مضبوط بنانے کے لیے پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا مگر میرے اس امیر دوست کی طرح امریکہ نے ہم سے تمام دوست ہتھیا لیے جو تین چار سال تک میرے ساتھ چپکا رہا، کسی دوست یا شناسا سے ملنا ہوتا تو وہ ضد کر کے اپنی کار میں لے جاتا۔ پھر میرے بہت سے ملنے ملانے والے کب اس کے جگری دوست بن گئے پتہ ہی نہ چلا۔ سی پیک کی کچھ جہتوں پر عامر رانا نے حالیہ کالم میں روشنی ڈالی ہے۔ اس منصوبے میں اب امریکی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ سنا ہے کہ چند ہفتے قبل امریکی سینیٹروں کا ایک وفد گوادر میں آئل سٹی تعمیر کرنے کا منصوبہ لے کر پاکستان آیا تھا۔ قطر کے ساتھ ہماری حالیہ بات چیت بھی کچھ دوستوں کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے پر آمادہ کرے گی۔ میرا خیال ہے ایک حوصلہ افزا صورت حال ابھرنے والی ہے۔ بس تھوڑے سے کچھ کنکر ہیں جو راستہ روکے ہوئے ہیں ان کو ہٹا دیں۔