25 جون کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے بلاول بھٹو زرداری نے مختلف حوالوں سے پاک فوج اور خاص طور پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا تذکرہ کرتے ہُوئے اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں کہا کہ ’’ شہید بے نظیر بھٹو امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کِیا کرتی تھیں اور اُنہوں نے صدر پرویز مشرف کو "Pressure Point" کے طور پر استعمال کِیا‘‘ ۔ بلاول صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ صدر پرویز مشرف کے ’’صدارتی ریفرنڈم ‘‘ میں عمران خان اُن کے "Polling Agent" تھے ‘‘۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ’’ قبائلی اضلاؔع میں انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے پولنگ سٹیشنز میں پاک فوج کے اہلکاروں کی تعیناتی مناسب نہیں ہے ۔ ہم پاک فوج کی عزّت کرتے ہیں لیکن، اُسے متنازع نہ بنایا جائے ۔ اگر فوج "Polling Booths" میں ہوگی تو ، اُس پر الزامات لگیں گے‘‘۔ معزز قارئین!۔ بطور سیاستدان بلاول بھٹو کو اِس طرح کا بیان جاری کرنے کا استحقاق ہے ۔ پاک فوج کی عزّت کرنا تو، پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے ۔ اُس نے ملک کے مختلف حصّوں (خاص طور پر )قبائلی علاقوں سے جسے ( FATA) کہا جاتا تھا ، دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے عظیم قربانیاں دِی ہیں ۔ "P.T.M" (پشتون تحفظ موومنٹ)کے دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے میں بھی پاک فوج نے اہم کردار ادا کِیا ہے‘‘۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی ایم کے دو منتخب ارکان علی وزیر اور محسن داوڑ کو تو، پاک فوج ( اور پاکستان کے عوام) کے خلاف حرکتوں کی وجہ سے گرفتار بھی کِیا گیا تھا اور وہ جوڈیشل ریمانڈ پر پشاور میں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا بلاول بھٹو زرداری صاحب نے اُن سے اِنسانی ہمدردی یا نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے ، سپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی تھی کہ ’’ اُن دونوں کو ’’ اپنا مؤقف پیش کرنے کے لئے قومی اسمبلی کے ایوان میں پیش کِیا جائے؟ ، یا پاک فوج کے اختیارات محدود کرنے کی خواہش میں؟۔ علی وزیر اور محسن داوڑ کے "Production Orders" کی حمایت جنابِ آصف زرداری بھی کرتے رہے ہیں ۔ معزز قارئین!۔ عجیب اِتفاق ہے کہ ’’ آج سے 4 سال پہلے (16 جون 2015ء کو ) اسلام آباد میں جنابِ آصف زرداری نے "FATA" میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی ۔ پی۔ پی۔ پی۔)کے عہدیداروں کی تقریب ِ حلف وفاداری سے خطاب کرتے ہُوئے پاکستان کے جرنیلوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کی تھی ، جس کے "Clips" مختلف نیوز چینلوں پر بھی دِکھائے گئے تھے ۔ جس میں زرداری صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ ’’ اگر ہماری کردار کُشی بند نہ کی گئی تو ، ہم جرنیلوں کا کچا چٹّھا کھول دیں گے اور اُن کی ’’اینٹ سے اینٹ ‘‘ بجا دیں گے ‘‘۔ زرداری صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ جب پیپلز پارٹی ہل جاتی ہے تو ، سب ہل جاتے ہیں ، جس دِن ہم کھڑے ہوںگے تو ، تو صِرف سندھ ہی نہیں کراچی ، خیبر تک سب بند ہو جائیں گے‘‘۔ کیوں نہ مَیں جنابِ آصف زرداری کے ’’ روحانی والد ‘‘ ، بلاول بھٹو کے نانا اور پاکستان کے پہلے سِولین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدر جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کا مختصراً تذکرہ کروں ؟۔ 7 اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے پہلے منتخب صدر ، میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کِیااور مارشلائی کابینہ میں لاڑکانہ کے جاگیر دار ، نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی کابینہ میں "Select" کرلِیا ۔ دو دِن صدر سکندر مرزا کے نام ، جنابِ بھٹو کا یہ خط "On Record" ہے کہ ’’جنابِ صدر آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘۔ 20 دِن بعد جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف کر کے لندن جلا وطن کردِیا تو، اُنہوں نے بھی جنابِ بھٹو کو اپنی کابینہ میں "Select" کرلِیا۔ جنابِ بھٹو نے بھی صدر جنرل محمد ایوب خان کو اپنے "Daddy" کی حیثیت سے "Select" کرلِیا ۔اُنہیں غازی صلاح اُلدّین ایوبی ثانی اور ’’ ایشیا کا ڈیگال‘‘ مشہور کرنے کی کوشش کی؟ اور کابینہ سے "Field Marshal" بنوا دِیا۔ 2 جنوری 1965ء کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں بنیادی جمہوریت کے صِرف 80 ہزار ارکان کو صدرِ پاکستان کا انتخاب کرنا تھا۔ صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، قائداعظمؒ کی ہمشیرہ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ۔ صدر ایوب خان کو خوف تھا کہ ’’ کہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان انہیں سرکاری ملازم ہونے کی حیثیت سے اُنہیں انتخاب کے لئے نا اہل نہ قرار دے دیں ؟‘‘۔ چنانچہ اُنہوں نے جنابِ بھٹو کو اپنے "Covering Candidate" کی حیثیت سے "Select" کرلِیا ۔بعد ازاں 9 ستمبر 2008ء کو جنابِ آصف زرداری کو بھی صدارتی انتخاب میں اپنی ہمشیرہ فریال تالپور صاحبہ کے سِوا پارٹی میں کوئی ’’ لیڈر ‘‘ نہیں ملا تو، اُنہوں نے بھی فریال صاحبہ کو اپنا "Covering Candidate" بنا لِیا ۔ پھرمیڈیا پر یہ خبر آئی کہ ’’ جنابِ آصف زرداری نے پاکستان میں امریکی سفیر سے کہاہے کہ ’ ’ اگر مجھے کچھ ہوجائے تو ، آپ میری ہمشیرہ کا خیال رکھیں !‘‘۔ ظاہر ہے کہ ’’ جنابِ آصف زرداری نے بھی امریکی سفیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بات کہی ہوگی؟۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے بعد جنابِ بھٹو ، صدر جنرل محمد یحییٰ خان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ رہے ۔ پھر جنابِ ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کے صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدر بن گئے ۔ پھر وزیراعظم منتخب ہُوئے اور اُنہوں نے 7/8 سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کر کے جنرل ضیاء اُلحق کو آرمی چیف بنا دِیا۔ مارچ 1977ء میں وزیراعظم بھٹو نے ملک میں عام انتخابات کرائے ، جن میں دھاندلی ہُوئی۔ اپوزیشن جماعتوں نے تحریک چلائی ، حالات قابو سے باہر ہوگئے تو ، 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء اُلحق نے جنابِ بھٹو کی حکومت ختم کر کے خُود اقتدار سنبھال لِیا۔ 4 اپریل 1979ء کو جنابِ بھٹو کو ، سپریم کورٹ کے حکم سے قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ’’ بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت سے پھانسی دے دِی گئی ۔ قتل کا یہ مقدمہ خُود بھٹو صاحب کے دَور میں درج ہُوا تھا ۔ کچھ عرصہ جدوجہد کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو ملک سے باہر چلی گئیں۔ پھر بیگم بے نظیر بھٹو نے امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی وطن واپسی کی راہ ہموار کرلی۔ 10 اپریل 1986ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو جب ، لاہور کے ہوائی اڈّے پر اُتریں تو اُنہیں جنرل ضیاء اُلحق کی طرف سے اُن کی زندگی کی ضمانت دے دِی گئی تھی۔پھر محترمہ دو بار وزیراعظم منتخب ہُوئیں اور برطرف بھی۔ پھر بلاول بھٹو زرداری محترمہ نے ’’ صدر پرویز مشرف کو "Pressure Point" کے طور پر استعمال کِیا ۔ "N.R.O" ہوا اور بہت کچھ ہُوا ۔ 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں قتل ہوگئیں۔ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اپنے مجازی خُدا کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا لیکن، اُن کی مبینہ وصیت کے مطابق جنابِ آصف زرداری نے اپنے 19 سالہ بیٹے کو پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خُود اُس کے ماتحت شریک چیئرپرسن کا عہدہ سنبھال لِیا۔معزز قارئین!۔ 2008ء کے عام انتخابات میں ارکان اسمبلی کے لئے "Graduation" کی شرط تھی لیکن، جنابِ آصف زرداری ’’کِس کِس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ؟‘‘ صدر ِ پاکستان بن گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف کو تو، رخصت ہونا ہی تھا ؟۔ آخر اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھی تو کسی نہ کسی نے تو کچھ کہا ہوگا ؟۔ اصل مسئلہ تویہ ہے کہ ’’ جناب آصف علی زرداری ، اُن کی ہمشیرہ ، بلاول بھٹو زرداری اور اُن کی پارٹیوں کے قائدین اور ’’شریفینِ لاہور اور لندن ‘‘ کی طرزکے سیاستدانوں کے خلاف تو کرپشن اور قومی دولت لوٹنے کے مقدمات ہیں ۔ مقدمات کا فیصلہ "N.A.B" کی عدالتیں کریں گی یا اعلیٰ عدلیہ ؟۔ پاک فوج یا قبائلی اضلاع کے انتخابات میں "Polling Booths"پر ڈیوٹی دینے والے افسران اورجوان تو ، اپنے اعلیٰ افسران کے حکم کے تابع ہیں ، جس طرح پاکستان کی سرحدوں پر تعینات افسران اور جوان۔