پاک چین دوستی کا سفر شاہراہ ریشم کی طرح خوبصورت مگر بہت مشکل رہا ہے۔ یہ وہ دوستی ہے جس کی راہ میں ہمیشہ سازش کے جال بچھائے گئے ہیں۔پاک چین دوستی کو بھارت اپنے خلاف سمجھتا ہے۔حالانکہ اگر جنوبی ایشیا میں بھارت نامی کوئی ملک موجود نہ ہوتا تب بھی یہ دوستی ہوتی اور اس دوستی کی شاخ پر زیادہ پھول کھلتے۔ پاک چین دوستی کو اپنے خلاف سمجھنے والا بھارت شروع دن سے اس تعلق کو ختم کرنے کے لیے چالیں چلتا رہا ہے۔ یہ پاکستان کا خلوص اور چین کی دانائی ہی ہے جس کی وجہ سے اس دوستی کی راہ میں آنے والی ہر سازشی رکاوٹ کو ناکام ہونا پڑا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو چین کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ چین میں پاکستان کو ٹارگٹ کرے مگر مشکل یہ ہے کہ چین کا اپنا انٹیلی جنس نیٹ ورک اس قدر متحرک اور منظم ہے کہ وہاں بھارت تو کیا امریکہ کو بھی کوئی سازش کرنے کا موقعہ نہیں مل سکتا۔ ورنہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہر قسم کی کوشش کی ہے کہ وہ چین میں مشکل حالات پیدا کرے مگر کوئی کر نہیں سکتا۔ اس لیے وجہ پاکستان میں چین کو نشانہ بناتے ہیں اور چین ان کی ہر چال کو ناکام کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اس بار بھی خیبر پختون خوا کے علاقے اپر کوہستان میں جس طرح داسو ڈیم منصوبے کے قریب چینی انجینئرز کی بس کو حادثہ پیش آیا اور جس میں 13 چینی ماہرین موت کے گھاٹ اتر گئے اور اس پر چین نے پہلے دن سے یہ موقف اپنایا کہ یہ ایک دہشت گرد کارروائی ہے اور اب پاکستان کا بھی یہ موقف ہے کہ حکومت کو حادثہ کا شکار ہونے والی بس سے ایسے شواہد حاصل ہوئے ہیں جس سے اس بات کا امکان مضبوط ہونے لگتا ہے کہ بس حادثہ ایک دہشتگرد کارروائی بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ چینیوں پر پاکستان میں حملے ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں اور چین نے ہمیشہ اپنے شہریوں کی لاشیں پاکستان کی سرزمین سے اٹھائی ہیں،مگر اس ضمن میں قابل دید بات یہ ہے کہ چین نے کبھی بھی کسی دہشتگرد کارروائی کے نتیجے میں کسی منصوبے کو نامکمل حالت میں نہیں چھوڑا۔ زندگی سے پیار کون نہیں کرتا؟ہر ملک کو اپنے شہری عزیز ہوتے ہیں۔ چین بھی اپنے شہریوں سے محبت کرتا ہے اور چین کو معلوم ہے کہ پاکستان میں کسی ترقیاتی منصوبے پر کسی بھی چینی کو بھیجنا ایسا ہے جس طرح کسی شخص کو میدان جنگ کے محاذ پر بھیجا جائے۔ چینی ماہرین اور انجنیئرز پر بہت سارے حملے ہوئے ہیں۔ کبھی کسی کو اغوا کرلیا گیا ہے اور کبھی کسی پر جان لیوا حملہ ہوا ہے۔ مگر ان سارے حملوں کے باوجود چین نے اپنے شہریوں کو واپس نہیں بلایا اور نہ چینی دہشتگرد حملوں کے ڈر سے پاکستان کو چھوڑ کر بھاگے ہیں۔چینی ہمیشہ ڈٹے رہے ہیں۔ چین کی حکومت تو بہت ہوشیار اور بیحد ذہین حکومت ہے۔ چین کے عام باشندے بھی یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ انہیں پاکستانیوں سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان کی حکومت اور شہروں کی انتظامیہ نے احتیاطی طور پر چینی شہریوں کی نقل و حرکت کو محدود رکھا ہے اگر ہماری حکومت کی طرف سے چینی عوام پر پابندیاں نہ ہوتیں تو چینی لوگ پاکستان میں پاکستانیوں کی طرح پیدل چلتے نظر آتے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ چینی باشندوں کے دشمن پاکستان میں صرف وہ ہوسکتے ہیں جو پاکستان کے بھی دشمن ہیں۔ چینی باشندوں پر ہر حملے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح سے چینیوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس وقت تو ہماری حکومت داسو بس حادثے پر تحقیق کر رہی ہے اگر یہ کوئی دہشتگرد کارروائی ہوگی تب بھی پاکستان اور چین کے دوستی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوگی۔ اس بات کو اس تناظر میں دیکھنے کا سبب یہ ہے کہ ایسا کچھ پہلی بار نہیں ہوا۔ پاکستان اور چین کی قربت بھارت تو کیا امریکہ کو بھی اچھی نہیں لگتی۔ بھارت نے ہمیشہ اس دوستی پر وار کیے ہیں۔ بھارت جو کہ صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ چین کو بھی اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ جب بھارتی فوج یا بھارت کے حکمران ’’دشمن‘‘ لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس میں پاکستان بھی آجاتا ہے اور چین بھی شامل ہوتا ہے۔ملکوں کے آپس میں سرحدی تنازعات ہوتے ہیں۔ یہ ایک بیحد فطری بات ہے۔ اگر ہم یورپ کو دیکھیں تو ان کے کچھ شہر دو ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں ایک روٹی کو بانٹ کر کھایا جاتا ہے۔ پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے سرحدی مسائل اس طرح سلجھا لیے جس طرح کوئی اپنے بکھرے بال سلجھائے۔ مگر بھارت اور چین کے درمیاں سرحدی تنازعات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے رہے ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے کے باعث بھارت اور چین کے درمیان 1962ء کے دوران ایک جنگ بھی ہوچکی ہے اور بھارت کے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے زیادہ شدید ہوتے رہے ہیں۔اس وقت بھی ’’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘‘ پر شدید کشیدگی کی فضا ہے۔ جب کہ حالیہ دنوں کے دوران اس سرحد پر چینی اور بھارتی فوجیوں کی جھڑپیں معمول بن چکی ہیں۔ حالانکہ بھارت اور چین کے درمیان یہ معاہدہ بھی ہے کہ ’’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘‘ پر کوئی فائر نہیں کرے گا لیکن پچھلے دنوں تاریخ میں پہلی بار ہلکے ہتھیاروںکا خوب استعمال ہوا اور دونوں طرف سے لاشیں بھی اٹھائیں گئیں اور ان جھڑپوں میں بھارت کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ بھارت نے چند ماہ پہلے امریکہ سے جو دفاعی معاہدے کیے نشانہ بھی چین تھا ۔ چین کو معلوم ہے کہ بھارت میں اتنا دم خم نہیں ہے۔ یہ اصل میں امریکہ ہے جو بھارت کی صورت میں چین کو معاشی اور اب سیاسی طور پر آگے آنے نہیں دے رہا۔ امریکہ کو چین کی پیش قدمی سے شدید تشویش ہے اوراس تشویش میں بھارت نے بھی اپنے آپ کو شامل کر لیا ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت بہت زیادہ پریشان ہے۔ ایک طرف چین ہے اور دوسری طرف پاکستان اور دونوں ممالک نہ صرف بھارت کے ساتھ سرحدی طور پر جڑے ہوئے ہیں بلکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت کے مالک بھی ہیں۔ کیا یہ بات بھارت کے حق میں کہ اس کے اپنے دو پڑوسیوں سے دشمنی ہو اور ان دو دشمنوں سے جو دشمن ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ بھارت میں اگر عقل ہوتی تو وہ یہ قدم کبھی نہیں اٹھاتا۔ بھارت کے لیے پاکستان کی کوئی خوشی اور کوئی بھی خوشحالی ناقابل برداشت رہی ہے۔ اس لیے بھارت کے لیے سی پیک کامنصوبہ بہت بڑے صدمے کا باعث بنا۔ سی پیک کے بعد پاکستان میں چینی باشندوں کے خلاف دہشتگرد حملے معمول بن گئے۔ بھارت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ چین چپ تو رہتا ہے مگر وہ اپنا حساب کبھی نہیں بھولتا۔ چین وقت آنے پر اپنا حساب سود سمیت وصول کرتا ہے۔پاک چین دوستی پر جتنے بھی حملے ہوئے ہیں بھارت کو ان کا حساب چکانا پڑے گا۔ بھارت نے اپنے دل میں انتقام کی آگ بجھانے کے لیے جتنے گناہ اور جتنی غلطیاں کی ہیں کیا بھارت ان سب کا حساب دے پائے گا؟بھارت کے لیے اس سے زیادہ پریشانی کی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ اس نے پاک چین دوستی پر جتنے بھی حملے کیے ہیں ان حملوں کی وجہ سے پاکستان اور چین کا رشتہ کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط اور گہرا ہوتا رہا ہے۔ پاک چین دوستی کا دھاگہ اب اس رسی کی صورت اختیار کرگیا ہے جس کو توڑنا بھارت کے بس کی بات نہیں ہے۔