پاکستان اور یورپی یونین کے مابین سٹرٹجک انگیج منٹ پلان پر معاہدہ طے پا گیاہے۔ معاہدے پر یورپی کمیشن کی نائب صدر فیڈریکا موگرینی اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے دستخط کئے۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان تجارت‘ امن و سکیورٹی‘ نقل مکانی سے متعلقہ امور اور منی لانڈرنگ کے انسداد کے اقدامات پر مبنی تعاون میں اضافے کا امکان ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کئی ایسی تبدیلیاں روبہ عمل ہیں جو پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات پر نظرثانی اور انہیں نئی ضرورتوں سے ہم آہنگ بنانے کا تقاضا کر رہی ہیں۔ یہ معاہدہ نئے بین الاقوامی تقاضوں میں پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات کو توانا رکھ سکتا ہے۔ یورپی یونین سے بہتر تعلقات پاکستان کی معاشی ضرورت ہے۔ اس وقت قومی برآمدات میں یورپی یونین کا حصہ 20فیصد ہے۔ یہ 3.4ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتا ہے۔یورپی یونین پاکستان سے ٹیکسٹائل‘ طبی آلات اورچمڑے کی مصنوعات درآمد کرتی ہے جبکہ پاکستان کو 3.8ارب ڈالر کا کیمیکل‘ برقی آلات اور فارما سوٹیکل مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد یورپی یونین نے سیاسی اور معاشی شعبوں میں پاکستان کے ساتھ مسلسل مضبوط روابط رکھے ہیں۔ دونوں کے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے سیاسی مکالمہ‘ تھرڈ جنریشن کو اپریشن معاہدہ اور اضافی ترقیاتی امداد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ دسمبر 2006ء میں یورپی یونین نے پاکستان اور افغانستان سے کہا کہ وہ سرحدی علاقوں میں بدامنی ختم کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ پاکستان اور یورپی یونین کے تعلقات میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے متعلقہ امور پر بھی ہم آہنگی موجود ہے۔ یورپی یونین کی دلچسپی کی وجہ سے 2004ء میں تجارت سے متعلق تکنیکی معاونت کے لئے ایک پروگرام شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کا مقصد یورپی یونین کے ضابطوں اور معیارات کو مدنظر رکھ کر تجارتی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ یورپی یونین نے 2002ء سے 2006ء تک پاکستان میں ترقی اور معاشی تعاون کے فروغ کے لئے 75ملین یورو مختص کئے۔ انسداد دہشت گردی مہم میں پاکستان کی شراکت داری کا احترام کرتے ہوئے یورپی کمیشن نے 50ملین یورو فراہم کئے۔ 2005ء میں زلزلے سے تباہی آئی تو یورپی کمیشن نے کے پی کے اور کشمیر میں بحالی کے کاموں کے لئے 93.6ملین یورو دیئے۔2013ء کے بعد پاکستان نے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو امداد کی بجائے تجارت سے منسلک کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کا نتیجہ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کی صورت میں برآمد ہوا۔ پاکستان ایسے کئی کئی تنازعات اور ضروریات میں الجھا ہوا ہے جہاں یورپی یونین کی حمایت درکار ہے۔ فنانشل ٹاسک فورس کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کو اکتوبر 2019ء تک مہلت دی گئی ہے۔ اس مدت کے دوران پاکستان اپنے اقدامات کے ذریعے ثابت کرے گا کہ وہ منی لانڈرنگ، کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کے زیر استعمال مالیاتی ذرائع کے خلاف موثر حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔ فنانشل ٹاسک فورس میں بھارت کو نمایاں حیثیت حاصل ہے اور وہ اپنی اس حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کروانے کی سرتوڑ کوشش میں ہے۔ پاکستان نے ترکی‘ ملائشیااور سعودی عرب کی مدد سے وقتی طور پر خود کو بلیک لسٹ ہونے سے بچا لیا ہے تاہم اس معاملے سے مستقل نجات کے لئے یورپی یونین کا تعاون ناگزیر ہے۔ سٹرٹجک انگجمنٹ پلان میں پاکستان کے لئے فنڈز اورتکنیکی معاونت کی شکل میں بعض آسانیاں موجود ہیں۔ منی لانڈرنگ اورغیر مستند ذرائع سے رقوم کی منتقلی کے خلاف پاکستان ایک موثر مہم شروع کر چکا ہے۔ شہریوں کی بڑی تعداد خود کو ایف بی آر میں رجسٹرڈ کروا رہی ہے۔ بینکوں کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو قابو میں لایا جا رہا ہے۔ جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے متعدد واقعات سامنے آنے پر ایف آئی اے اور نیب اپنی کارروائی کر چکے ہیں۔ نیٹو کے 29اراکین کی اکثریت یورپی یونین کی رکن ہے۔ عالمی مفادات کی نئی صورت گری بتا رہی ہے کہ امریکہ اور نیٹوکے درمیان اختلافات کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اس وقت اس اختلاف کی نوعیت سنگین نہیں۔ صدر ٹرمپ کو شکایت ہے کہ نیٹو افغانستان اور خلیج میں جاری آپریشنز کے لئے اپنے حصے کی رقم ادا نہیں کرتا جبکہ سارا مالیاتی بوجھ امریکہ کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف نیٹو کے دیگر ممالک کا خیال ہے کہ ان جنگی کارروائیوں سے امریکہ سب سے زیادہ فوائد حاصل کر رہاہے۔ برطانیہ اور یورپی یونین میں علیحدگی کا معاملہ بھی گرم ہے۔ بریگزٹ ہونے کے بعد یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاملات ایک نئی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستانی برآمدات کے لئے گنجائش بڑھانے کے لئے ابھی سے کوششوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اس کپاس سے دھاگہ اور ٹیکسٹائل کی دیگر مصنوعات تیار کی جا سکتی ہیں۔ یورپی یونین میں پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات‘ طبی آلات‘ چمڑے سے تیار اشیا اورکٹلری کی مانگ ہے۔ اس مانگ کو اس وقت پورا کیا جا سکتا ہے جب حکومت برآمد کنندگان کو یورپی یونین سے حاصل ہونے والی مراعات اور ان کی ضروریات سے کماحقہ آگاہ کرے گی۔ دنیا میں طاقت کے نئے محور پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادی رہنے کے بعد پاکستان اپنی خود مختاری اور معاشی آزادی کا تحفظ کر رہا ہے۔ ان کوششوں کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے ہمیں دنیا میں اپنے لئے موجود حمایت کا تخمینہ لگا کر اس سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی طے کرنا ہو گا۔ یورپی یونین کے ساتھ سٹریٹجک معاہدہ ہمہ جہتی نوعیت کا ہے اور اس میں پاکستان کے عصری مسائل کے حل کی گنجائش دیکھتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے۔