حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے 777ویں سالانہ عرس کی ابتدائی تقریب "رسم چلّہ" 24ذیقعد،بمطابق 27جولائی2019ء (اتوار) آپ کے دربار دُرِّبار واقع پاکپتن شریف میں اوقاف ایڈمنسٹریشن ،خانوادہ چشتیہ فریدیہ اور عقید تمندوں نے مشترکہ طور پر ادا کرتے ہوئے ،پیش آمدہ عرس کی آمد کا" سندیسہ "دے دیا ۔ اس رسم میں سجادہ نشین صاحب عشاء کے وقت دربار شریف میں حاضر ہو کر ،اس کے غربی گوشے میں کچھ دیر قیام کرتے اور ، ازاں بعد ’’ موہلی کا ایک دھاگہ‘‘ روضہ کے اندرونی حصے میں واقع نوری دروازے کے ساتھ باندھتے ہیں، اسی کو ’’رسمِ چلہ‘‘ کہتے ہیں ،جس کے ایک ماہ بعد یعنی 25ذی الحج کوحضرت بابا صاحب ؒ کے سالانہ عرس کی تقریبات کاباقاعدہ آغاز ہو گا۔عجب اتفاق کے 777ویں عرس کی اس ابتدائی تقریب کے دنوں میں ہی "پاکپتن اراضی کیس "کی تفتیشی ٹیم کوٹ لکھپت جیل میںان 72مربعوں کی تفتیش کے لیے سرگرم تھی ، جن کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک از خود نوٹس کے ذریعہ ، اس کی واگذاری کا حکم جاری کرتے ہوئے ،اس امر پربھی برہمی کا اظہار کیا تھا ،کہ بابا فرید کے مزار سے وقف اراضی ، سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کے باوجود واگذار کیسے ہوگئی ۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے مزار سے ملحق رقبہ تعدادی72مربعے بذریعہ نوٹیفکیشن، 17دسمبر1969ء کو سرکاری تحویل میں آئے ،جس کے متعلق دیوان قطب الدین صاحب کی اپیلیں بعدالت ڈسٹرکٹ جج ساہیوال اور عدالتِ عالیہ میں پذیرائی حاصل نہ کر سکیں ۔عدالتِ عالیہ کے فیصلہ کے خلاف دیوان صاحب نے سپریم کورٹ سے حکمِ امتناعی حاصل کرلیااور رقبہ بدستور انہیں کے قبضے میں رہا ۔1986ء میں ،ان کی طرف سے اس رقبہ کی واگذاری کے لیے ایک درخواست وزیر اعظم پاکستان کو پیش ہوئی ،اور 28اگست 1986ء کو یہ اراضی واگذار ہوگئی۔ اس واگذار شدہ اراضی میں سے دیوان صاحب کی طرف سے فروخت شدہ ، 17مرلے کے ایک پلاٹ میں فریقین کے مابین ایک اور مقدمہ بازی میں ،معاملہ سپریم کورٹ تک چلا گیا ۔ جس پر سپریم کورٹ نے اصل ملکیت کاپتہ چلنے پر بنیادی مقدمہ خارج کرتے ہوئے ،از خود نوٹس لے کر، اس امر کی وضاحت طلب کی کہ اس اراضی پر تو سپریم کورٹ کی طرف سے "حکم امتناعی"ہے ۔ "حکمِ امتناعی کے دورا ن یہ اراضی واگذار کیسے ہوگئی ۔" ؟ بہر حال ----یہ ایک دلچسپ کیس ہے ،جس کا ذکر ضمناً یہاں آگیا جس کا ایک مطلب اورمفہوم یہ بھی ہے کہ وقف اراضی جس مقصد کے لیے وقف ہوئی اس کا مصرف اور استعمال بھی انہی مقاصد کے تحت ہونا ضروری ہے ،معاملات صرف ظاہری ہی نہیںبلکہ "باطنی نظام "کے زیر اثر بھی ہوتے ہیں ،اور بعض دفعہ ،بعض امور پر صاحب مزار کے "تصرفات"بھی ظاہر ہوتے ہیں ،جوکہ تصوف میں ایک مستقل اصطلاح ہے ،بہر حال --- حضرت بابا فرید الدین ؒ، جنہوں نے 90سال سے زائد عمر مبارک پائی--- ریاضت ،مجاہدہ ، فقر اور ترکِ دنیا ،آپ کی شخصیت کے نمایاں اوصاف تھے اورخود کوہمیشہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش فرماتے ، کہیں مستقل قیام کے خواہاں نہ رہے ، پاکپتن ، جو اس وقت دنیاوی شان وشوکت اور سطوت وجلال سے دور۔۔۔ اجودھن کے نام سے مشہور تھا، کے باشندے ظاہر پرست ، تند خُو اور درویشوں کے دشمن تھے ، اسی لیے یہاں قیام کو پسند کیا ،قصبہ کے باہر" کریر" کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اللہ کی یاد میں مشغول ہوئے ، آپ کا کرُتہ انتہائی بوسیدہ اور تار تار تھا، ایک شخص نے آپ کی خدمت میں نیا کرُ تہ پیش کیا ، آپ نے اُس کی خوشی کے لیے اُسے قبول کیا ، کچھ دیر کے لیے پہنا ،پھرفوراً اُسے اُتار دیا ، اپنے بھائی نجیب الدین متوکل کو فرمایا جو سُرو ر اور کیف مجھے اس پُرانے کرتے میں ملتا ہے، وہ نئے میں کہا ں ....؟دن کو جس کمبل پر نشست فرماتے--- رات کو اسی کو بچھونا بنا لیتے ، اور وہ کمبل اس قدر چھوٹا تھا کہ سر کی طرف کریں تو پائوںننگے اور اگر پائوں ڈھانپے تو سر ننگا ہوجاتا ۔ کریر کے پھل (ڈیلے) کو اُبال کر کھانا تناول فرما لیتے ۔حضرت نظام الدین فرماتے ہیں کہ یہ ڈیلے بھی جس دن وافر مل جاتا ، ہماری عید ہو جاتی ۔اس تنگی اور عُسرت میں بھی مشتبہ لقمے----کا سوال نہ تھا ، ایک مرتبہ ایک خادم نے ایک پیسے کا نمک۔۔۔ قرض کے طور پر لیکر کھانے میں ڈال دیا ، آپ نورِ باطن سے بھانپ گئے اور کھانے سے ہاتھ کھینج لیا ۔ جب آپ کی شہرت دور دور پہنچی ،ناصر الدین محمود دہلی سے ملتان اور اوچ کی مہم پہ جاتے ہوئے ،آپ ؒ کی خدمت میںپاکپتن آیا۔ سلطان کے نائب غیاث الدین بلبن نے سلطان کی طرف سے چار گائوں کا فرمان اور "جاگیر نامہ "اورکثیر نقدی آپؒ کی خدمت میں پیش کی ۔آپؒ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ بلبن نے جواب دیا کہ نقدی تو خانقاہ کے درویشوں کے لیے ہے اور یہ چار گائو ں کی جاگیر ،آپؒ اور آپ ؒ کی اولاد کے لیے ہے ۔آپؒ نے قبول کرنے سے معذرت چاہی اور فرمایا کہ نقدی تو درویشوں میں تقسیم کردو،لیکن جاگیرکا فرمان واپس لے جائو، مجھے اس کی خواہش نہیں -----حضرت بابا صاحب ؒ اگرچہ از خود حکمران خاندان کے چشم و چراغ تھے ،آپ ؒ کے دادا فرخ شاہ ،کابل کے بادشاہ تھے ، آپ کے والد ماجد شیخ کمال الدین سلیمان ----سلطان محمود غزنوی ؒ کے بھانجے اور خدارسیدہ بزرگ تھے ۔لیکن حضرت بابا جی ؒنے ساری زندگی فقر، درویشی اورسادگی کو پسند فرمایا ۔ برصغیر میں صوفیاء کرا م نے محبت، انسان دوستی اور رواداری کا جو خوبصورت نظام مرتّب اور مدوّن کیا، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے اپنے حُسنِ عمل سے اُس کے نقش ونگار کو اتنا اُجالا کہ اُس کی چمک رہتی دنیا تک انسانیت کو روشنی اور راہنمائی عطا کرتی رہے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو اتنا عروج ، بلندی اور مقبولیت عطا کی کہ ہروقت عقیدت مند پروانوں کی طرح آپؒ کے گرد جمع رہتے ۔رات گئے خانقاہ کا دروازہ کھلا رہتا،اپنے پرائے ،مسلم ،غیر مسلم یہاں تک کہ ہندو جوگی بھی خدمت میں حاضر ہوتے ۔ بابا صاحب ؒ ہر شخص کو اس کی صلاحیت ، سمجھ اور ظرف کے مطابق فیض سے نوازتے ----بالعموم ظہر کی نماز کے بعد حجرے کا دروازہ عام مخلوق کے لیے کھلتا ،سائلوں اور حاجت مندوں کا انبوہِ کثیر ہوتا۔ حضرت بابا صاحب ؒ بلند آواز سے ارشاد فرماتے :سنو! میرے پاس ایک ایک کرکے تسلی سے آئو ،تاکہ ہر ایک کو حسبِ ضرورت توجہ دے سکوں ۔مزید فرماتے :"جب تک میرے حجرے کے باہر ایک بھی سائل بیٹھا ہے ،مجھے عبادت میں لطف نہیں آنا ۔ـ"شمالی ہندوستان میں آپ کی خانقاہ بین المذاہب مکالمے کی اوّلین درسگاہ کے طور پر بھی تاریخ میں ہمیشہ محفوظ اور تابندہ رہے گی ۔آپؒ کے ـ۔جماعت خانے "میں لنگر کے لیے بچھنے والے دستر خوان ۔۔۔رنگ ونسل اور طبقات کی تفریق کومٹانے کا مؤثر ذریعہ اور خطہ کے بسنے والوں کے لیے محبت اور اخوت کا عالمگیر پیغام تھا۔"الخلق عیال اللہ"پر محکم یقین کے ساتھ ،اس آستاں سے انسانی برادری کو ایک رشتۂ الفت میں پرونے کا فیض اتنا عام ہوا کہ پورا ہندوستان اس فکر کی خوشبو میں نہا گیا ۔