بزرگ قائد سید علی گیلانی کی وفات سے آج کشمیرکی فضا سوگوارہے لیکن یقین کیجئے کہ ایسے میں بھی سیدعلی گیلانی مرحوم کا تراشیدہ نعرہ ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہماراہے‘‘ کشمیرمیں گونج رہا ہے۔ کشمیرکے 92 سالہ بزرگ سید علی شاہ گیلانی تحریک آزادی کشمیر کی پہچان اوراس کے روح رواں تھے۔ان کا جدوجہد آزادی کے ساتھ والہانہ عشق، جدوجہد کی مقصدیت کا گہرا شعور، نشیب و فراز کا ادراک، نوجوانان ملت کشمیر کے ساتھ محبت، حصول منزل کی فکر، دشمن کے منصوبوں پر گہری نظر، تحریکی تقدس کا احساس کشمیریوں پر سرچڑھ کربول رہا ہے۔تحریک آزادی کشمیرکے حوالے سے ان کاکرداروعمل بے لاگ اور بے باک تھا ۔ مسئلہ کشمیر کے اصولی اور حقیقی پس منظر کی روشنی میں جو موقف آپ نے اختیار کیا اس کی وجہ سے ظاہر ہے آپ کو بھارت کی طرف سے مصائب ومشکلات کاسامنارہا مگرساتھ ساتھ اپنوںکی طرف سے بھی انہیں کوسنے دیئے کہ وہ ’’ ضدی او ر ہٹ دھرم لیڈر‘‘ ہیں۔تا ہم ان طنزیہ القاب کی پرواہ کئے بغیرسید علی شاہ گیلانی زندگی کی آخری سانس تک کشمیر کی جدوجہد آزادی کی آبیاری اور رکھوالی کیلئے اس باغبان کا کردار نبھاتے چلے آئے وہ کشمیرکی تحریک آزادی کے سفارتی محاذ پرکسی کی خوشنودی اور رضامندی یا خفگی اور ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر، راست اپروچ اور صحیح موقف اختیار کرتے رہے۔ سید علی گیلانی نے اپنی جوانی میں ہی جس راستے کا انتخاب کیا تھا پیرانہ سالی میں بھی عز م وہمت کے ساتھ اس پر گامزن رہے۔ آپ نے ہندو استبداد کے خلاف عزم و استقلال دکھایا ۔ انہوں نے اپنے دیرینہ ہمسفروں اور اپنے پشت پناہوں کی رفاقت اور پشت پناہی سے محرومی کو خاطر میںنہ لاتے ہوئے آخری دم تک خونین کفنوں کو کندھا دیا۔ آپ حکمرانوں، شاہی درباریوں، اپنوں اور غیروں کے مطعون ٹھہرے، لیکن آپ خاک و خون میں لت پت سر فروشوں، بے سہارہ والدین، عصمت دریدہ خواتین، بے خانماں ستم رسیدوں، نوبیاہی بیوائوں، اسیروں، زخمیوں، مہاجروں، مظلوموں غرض کشمیرکی عظیم جدوجہد اور مقدس تحریک کے حقیقی وارثوں کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ آپ نے ان کے آنسوؤں، آہوں اور سسکیوں کو زبان بخشنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔اسی لئے یہ نعرہ کشمیرکے بچے بچے کی زبان رہا ہے ’’کون کرے گا ترجمانی ،سیدعلی گیلانی۔ کشمیر میں ’’نظریہ پاکستان‘‘ کی سب سے بڑی اورزوردارآوازسید علی شاہ گیلانی نے اندھی تقلید کے بجائے ہمیشہ اصول کو مقدم رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ زندگی کے کسی بھی میدان میں زہرہلالِ کو قند کہنے کے روادار نہیں ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے نہ صرف بیگانے ناخوش تھے بلکہ اپنے بھی خفا رہے۔ آپ نے تحریک آزادی کشمیر کے خلاف مشرف کے اقدامات کا جائزہ لیکر تحریک مزاحمت کو نیلام ہونے سے بچانے کا عزم صمیم کرکے اس ہمہ جہت سیلاب کے سامنے کوہ گراں کی صورت کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا۔ آپ نے نہ صرف دہلی میں 17 اپریل2005 ء کو مشرف کی مصلحت آموزی سننے کے بعد ان کو حقیقی اور بنیادی موقف پر کسی مرعوبیت کے بغیر ڈٹے رہنے کا مشورہ دیا اور اپنے فولادی عزم سے آگاہ کیا۔ آپ نے ہمیشہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں صاف طور پر مشرف کی غیر ضروری اور نقصان رساں لچک سے کشمیرکے سواد اعظم کو بروقت آگاہ کرتے ہوئے بھارت اوراس کے سب سے بڑے سرپرست امریکہ کو مایوس کردیا۔ اصل حقیقت بھی یہی ہے کہ الحاق پاکستان کا نعرہ بلند کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مسئلہ کشمیر پرمشرف کی غلطیوں پر پردہ ڈالا جائے ۔یہ گیلانی صاحب کی جرأت رندانہ اور انکی بے باکی کی واضح دلیل ہے۔سید علی شاہ گیلانی جہاں اس معاملے میں سرخرو ہیں وہیں اس میں کوئی کلام نہیں کہ جدوجہد آزادی کی آبیاری کرتے ہوئے سید علی شاہ گیلانی بھارت اور کشمیر میں بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے سے کبھی نہیں کترائے۔ بزرگ راہنماسید علی گیلانی مرحوم تاریخ کشمیر کی وہ منفرد ہمہ پہلو شخصیت تھے تازیست جن کا موقف بے جھول ہے۔ کشمیر کی سیاسی بساط پرآپ کم و بیش پون صدی سے چھائے رہے۔ اس محاذ پرکھڑاہوکر1990ء میں منصہ شہود پرآنے والی کشمیرکی’’ مسلح جدوجہد‘‘میںآپ نے باصلاحیت سفیر بن کر جہادکشمیر کی کامیابی کے لئے آپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔جسے دیکھ کردشمن بھی اس امرکااعتراف کرتے ہیں کہ سیدعلی گیلانی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے سیاست پر بات کریں یا معاشرت پر، آپ کے مخاطب غیر مسلم حکمران ہوں یا مسلم ممالک پر مسلط حکمران آپ کو جس تک بھی بات پہنچانی تھی بے لاگ پہنچائی، توحید کی تبلیغ کرنی ہو یا دانشوران قوم کی مرعوبیت اور مراعات خواہی کا المیہ منظر عام پر لانا ہو آپ اخلاق حمیدہ کے دائرے میں رہ کر انتہائی دلنشین انداز میں حق بات کہہ دیتے ۔ آپ کی بات دوٹوک ہوتی ہے مگر اخلاق اور آداب سے آراستہ۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تحریکوں کی ترقی میں شخصیات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اصول کو جب موزوں اور موافق شخصیت میسر آتی ہے تو تحریک ہمہ جہت اور وسعت پذیر بن جاتی ہے۔ سید علی گیلانی کی روح کی گہرائیوں میں کشمیر کی تحریک آزادی کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ کشمیرکی بھارت سے آزادی کی جدوجہدمیں یکسوتھے ۔ان کاکرداروعمل کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی پر وارفتگی کا اہم محرّک رہا ۔ ان کے لائحہ عمل کی عملی تائید آج کشمیرکی تیسری نسل کررہی ہے ۔ سید علی شاہ گیلانی کیلئے کشمیر کا تنازعہ سوہان روح کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ ہر آہ میں اس دردوکرب کا اظہار کرتے تھے۔ جس طرح ایک سلیم الفطرت اوربے لوث عاشق کی ہر ادا سے جذبۂ عشق چھلکتا ہے اسی طرح اٹھتے بیٹھتے، جلوت و خلوت میں، اسیری اور آزادی میں، مسجد و محفل میں، فرد اور افراد کے ساتھ، عوام میں خواص میں، حاکم اور محکوم کے سامنے، زبان اور قلم سے، شادی اور غمی میں، جنازے میں جلوس میں غرض ہر جگہ اور ہر حال میں سید علی شاہ گیلانی اپنے اس درد کا اظہار کرتے رہے۔ صاف دکھائی دیتاکہ انہوں نے تحریک کے سارے درد والم کو اپنے حساس دل کے دامن میں سمیٹ لیا تھا۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ گیلانی کی انسیّت کا رنگ ان کی شخصیت کے ہر پہلو میں نمایاں طور پرجھلکتا رہے گا۔