2018 میں عمران خان کی حکومت کے قیام کے بعد ان پر ایک بار پھر ابتلا کا دور شروع ہوا ، جیل گئے اور پھر بیمار ہوئے ۔ نومبر 2019 میں انہیں عدالت سے ضمانت پر علاج کے لئے لندن جانے کی ا جازت ملی ۔ اب 2022 کا نومبر بھی شروع ہو چکا ہے وہ اب بھی ملک سے باہر ہیں علاج تو ایک بہانہ تھا وہ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے تعاون اور مدد سے خود کو مزید کسی ابتلا اور مشکل سے بچانے میں کامیاب ہوگئے اور ایک بار پھر ان کے اندر کا تاجر نواز شریف سیاست دان نواز شریف پر حاوی ہو گیا۔یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کا حوالہ دینا بر محل ہوگا اگرچہ ان کی سیاست اور بیشتر فیصلوں سے اختلاف ممکن ہے تاہم انہوں نے اپنی زندگی کے مشکل ترین دور میں قید و بند کی صعوبتوں کا بڑی بہادری اور استقامت سے سامنا کیا اور کسی بھی موقع پر فوجی حکومت سے کوئی رعایت قبول کرنے سے گریز کیا یہاں تک کہ تختہ ء دار ان کا مقدر کر دیا گیا۔ ۔ 1977 میں جب جنرل ضیاء ا لحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے مارشل لاء کا نفاذ کیا تو یہ وقت ایک سیاست دان کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کے لئے بڑی آزمائش کا تھا۔ان پر ایک سیاسی مخالف کے والد کے قتل کا مقدمہ عدالتوں میں چلا اور انہیں سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا ۔ مقدمے کے دوران اور عدالتی فیصلے کے بعد بھی ذوالفقار علی بھٹو کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ فوجی حکومت کے ساتھ سیاست سے علیحدگی کی بنیاد پر معاہدہ کر لیتے اور اپنی جان بچالیتے۔ان کے لئے قومی اور بین الاقوامی سظح پر اس کی حمایت بھی موجود تھی اور اس کے لئے کوششیں بھی کی گئیں مگر وہ اس کے لئے خود کو آمادہ نہیں کر سکے ۔ سیاسی بحران اور مشکل وقت میں ہی قیادت کی آزمائش ہوتی ہے۔یہی وقت سیاست میں سرخرو ہونے کا ہوتا ہے جس میں نوازشریف اب تک ناکام نظر آتے ہیں۔لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں سیاست کرنا ان کی جماعت کے لئے سیاسی نقصان کا باعث بنا ۔ جس کا مظاہرہ حالیہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں سب نے دیکھا ۔ پاکستان میں ان کی غیرموجودگی سے پارٹی قیادت منقسم اور غیر منظم رہی ۔اقتدار سے الگ ہونے کے بعد ایک سیاسی جماعت کو متحد اور منظم رکھنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔نواز شریف نے اس سے اتنا ہی اغماض برتا۔ اس پر مستزاد خاندان میں سیاسی طاقت کے حصول کی کشمکش نے بھی پارٹی کو کمزور کیا۔ اس بات سے خاندان یا پارٹی کی سطح سے کتنا ہی انکار کیا جائے کہ خاندا ن میں پارٹی قیادت کی کشمکش نہیں ہے یا پارٹی میں واضح طور پر نواز شریف بمقابلہ شہباز شریف اور مریم نواز بمقابلہ حمزہ شہباز کی بنیاد پر گروہ بندی نہیں ہے واقعہ سے انحراف ہے۔خاندان کی بنیاد پر قیادت کا ارتکاز ہمیشہ ہی جلد یا بدیر اس صورتحال کو لازمی جنم دیتا ہے پارٹی بھی کمزور ہوتی ہے اور خاندان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں انڈیا میں کانگریس پارٹی کی قیادت کو نہرو خاندان سے باہر ملیکا رجن کھڑگے کے سپرد کیا گیا ہے تاکہ انڈین سیاست میں کانگریس کی مسلسل گرتی ہوئی حیثیت کا تدارک ہو سکے۔ جمہوری سیاست میں نہ تو منصب پر اجارہ ہوتا ہے اور نہ ہی پارٹی قیادت پر کسی خاندان کا اجارہ ۔ پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت معروف سیاسی خاندانوں میں مرتکز رہی ہے جن کے پیش نظر محض اقتدار کا حصول اور ہر قیمت پر اس کا تحفظ رہتا ہے۔ جس کے باعث سیاسی جماعت کے جمہوری تشخص پر سوالیہ نشان لگتے ہیں تو کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ شریف خاندان کو یہ بات اب سمجھ لینا چاہئیے وگرنہ ان کے لئے اور ان کی پارٹی کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ اب تک ان کی سیاست کا مرکز پنجاب رہا ہے ۔ پنجاب نہ صرف صوبہ کی حیثیت سے اہم ہے بلکہ اس میں کامیابی کی بنیاد پر ہی وفاق میں حکومت کا قیام ممکن ہوتا ہے ۔ تاہم ایک قومی سیاسی جماعت کی حیثیت سے پاکستان مسلم لیگ نواز کو دیگر صوبوں میں بھی اپنی تنظیمی ہیئت کو فعال بنانے کی ضرورت ہے ۔ بالخصوص سندھ اور خیبر پختون خواہ سے لا تعلقی ایک قومی سیاسی جماعت کے لئے مناسب نہیں۔ محض پنجاب پر انحصار اب کافی نہیں ۔ ا نہیں اپنی اور پارٹی کی سیاست کی بقا مطلوب ہے تو کسی غیر سیاسی سہارے کی امید کے بجائے پارٹی کوسیاسی طور پر مضبوط اور منظم کرنا ہوگا۔ نواز شریف پاکستان واپس آئیں وہ علاج کے لئے عدالتی ضمانت پر ہیں ۔ واپس آکر پوری ذمہ داری اور استقامت کے ساتھ مقدمات کا سامنا کریں۔ اس سے ان کے وقار میں اضافہ ہوگا اور پارٹی کی پاکستان میں موجود قیادت کو تقویت بھی ملے گی۔پارٹی قیادت سے متعلق ضروری فیصلے کریں اور قیادت کو خاندان کے حصار سے باہر نکالیں ۔ اب پارٹی کو کسی تجارتی کمپنی کی طرح چلانا ممکن نہیں۔سیاسی جماعت عوام کی ملکیت ہوتی ہے اس کی قیادت مشترکہ (Collective) اور قابل انتقال (Transferable) ہونی چاہیئے ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کو اب نئی اور زیادہ متحرک قیادت کی ضرورت ہے۔وہ تین بار وزیر اعظم بن چکے ہیں اور دو بار پنجاب کے وزیر اعلی اب انہیں کسی حکومتی منصب کی نہ ضرورت ہے اور نہ خواہش ہونی چاہیئے وہ ایک رہنما کے طور پر پارٹی کی سرپرستی کریں۔پارٹی کی کامیابی کے لئے کہیں اور نرم گوشہ بنانے کے بجائے عوام سے رابطے کو مضبوط بنائیں۔اسی طرح وہ اپنی سیاسی جماعت کی مشکلات کو کم کر سکتے ہیں۔1980کی دہائی کی سیاست کا دور گزر گیا ۔ یہ 2022 ہے۔ اب سیاست کے تقاضے بدل چکے ہیں یا بدلنے کو ہیں ۔ ابلاغ کی جدید سہولتوں کے باعث عوامی شعور بتدریج بلند ہورہا ہے سیاسی آگہی فزوں تر ہے۔اب سیاسی قیادت کو عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ۔اب فرار کا موقع نہیں اب استقامت درکار ہے۔مسلم لیگ نواز کے لئے یہ سیاسی بقا کا معاملہ ہے ۔ اب یا پھرکبھی نہیں والے موڑ پر ان کی سیاست آچکی ہے مسقبل کی سیاست میںاگر پاکستان مسلم لیگ نواز کو فعال رہنا ہے تو اہم اور بڑے فیصلوں کا وقت آپہنچا ہے۔وقت بند مٹھی میں ریت کی طرح ان کی گرفت سے نکلنے کو ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا ۔