پاکستان کے نظریاتی وجود سے نفرت کرنے والے دانش ور، ادیب، صحافی اور کیمونزم کے زوال کے بعد آنے والی امریکی برسات میں پھوٹ پڑنے والی سول سوسائٹی کے ارکان کا ایک عمومی رویہ یہ ہے کہ جیسے ہی پاکستان کے کسی صوبے یا علاقے میں ہنگامے پھوٹ پڑیں، ماحول کشیدہ ہو جائے اور ریاستی مداخلت کرنا پڑجائے تو ان کی زبان پر ایک فقرہ سج جاتا ہے، ’’ہم نے 1971ء سے سبق نہیں سیکھا‘‘ اور ساتھ ہی سیاسی گفتگو میں پاکستانی کی نظریاتی اساس پر حملے سے بات شروع ہو گی ،کہا جائے گا کہ ’’یہ ملک دراصل بنا ہی غلط تھا، بھلا مذہب کے نام پر بھی قومیں تخلیق ہوتی ہیں‘‘۔ پھر اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی داستانیں بیان ہوں گی، اور آخر کار ساری برائی فوج اور مارشل لا پر ڈال کرانکی تان اس فقرے پر ٹوٹے گی کہ ’’یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔ اسی طرح کی گفتگو میں ہر وہ سیاستدان بھی شامل ہو جاتا ہے، جو زندگی بھرالیکشن نہ جیتا ہو یا پھر وقتی طور پر ہار اس کا مقدر بن گئی ہو۔ اس خطرناک راستے پر نوازشریف بھی مدت سے روانہ تھے۔ وہ شروع دن سے ایک مطلق العنان ’’جمہوری ڈکٹیٹر ‘‘کا خواب دیکھتے چلے آئے تھے۔ ایک ایسا وزیراعظم جس کے سامنے کسی شخص، ادارے یا گروہ کی اہمیت بس اتنی سی ہو کہ آج ’’ظلِ الٰہی‘‘ خوش ہوا تو انعام سے نوازا دیا اور کل ’’ظلِ الٰہی‘‘ ناراض ہوا تو گردن زدنی کاحکم صادر کر دیا۔ اس’’ شہنشاہ معظم‘‘ نے ،دو صدرِ مملکت، ایک چیف جسٹس اور ایک آرمی چیف کو آسانی سے پچھاڑ لیاتھا۔ یہ کامیابیاں ان کے اندرچھپے ہوئے ’’آمرانہ ‘‘ نفس کو پالنے پوسنے اور موٹا کرنے کے لئے کافی تھیں ـ خودی کا نشہ چڑھا ،آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہ، مگر بنا نہ گیا ’’خدا‘‘ بننے کی اسی تگ و دو میں 12اکتوبر 1999ء آگیا۔ جیل کی صعوبتیں ایسے نازک مزاج کہاں برداشت کرتے ہیں۔ سختی جھیلنا اور سختی میں ثابت قدم رہنا بڑے رہنماؤں کا خاصہ ہوتا ہے۔ فرانس کا نپولین یاد آتا ہے۔ واٹر لو میں آخری ذلت آمیز شکست کے بعدجب وہ’’ سینٹ ہیلنا‘‘ کے جزیرے پر قید تھا،تو جیل خانے کے انچارج نے اس کی تکلیف دہ حالت دیکھ کرکہا، اگر تم مجھے ایک درخواست لکھ دو تو میں حکام بالا سے تمہارے لئے رعائت لے دوں گا۔ نیپولین نے تاریخ ساز فقرہ کہا ، ’’حکمران درخواست نہیں دیتے، وہ حکم دیا کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں‘‘۔ دس دسمبر 2000ء کو رات گیارہ بجے کے قریب پرویز مشرف کی خسروانہ اجازت سے نوازشریف سعودیہ عرب روانہ ہوگئے۔جلا وطنی میں مصلحت کی زبان بولتے رہے، لیکن کبھی کبھی زبان لڑکھڑا بھی جاتی، مگریہ بہت نپی تلی ہوتی تھی۔ ایسے بولتے جیسے کوئی اپنوںسے ’’گلۂ جفائے وفا نما‘‘ کر رہا ہو۔ واپس لوٹے، بھائی کو پنجاب میں وزیراعلیٰ بنا دیا گیا، خود سیاست کے مزے لیتے رہے اور اگلی دفعہ وزارتِ عظمیٰ کے تخت پر جلوہ افروز ہو گئے۔ قدرت بھی عجیب ہے، ہرایسے شخص کو جس کے دماغ میں زمین پر بڑابننے کا خبط ہو، اسے آخری انجام سے پہلے وارننگ کے طور پر امتحان میں ضرورڈالتی ہے۔اب دوسری بار نکالے گئے۔ اپنے ہی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپنے ہی بھائی کی وزارتِ اعلیٰ کی سرپرستی میں،اسلام آباد سے لاہور تک کا پرامن جلوس نکالا۔ لوگوں کو سامنے پا کر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے نوازشریف ، ایک بار پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔ لیکن اس دفعہ بھی انہیں نپولین کی طرح باوقار جیل کاٹ کر تاریخ میں نام زندہ رکھنا نصیب نہ ہو سکا۔ ایسے بیمار ہوئے کہ پھر اجازت کی درخواست دی ، اور منظوری کے بعد دوبارہ خودساختہ جلا وطن ہو گئے۔ اب نوازشریف کی عمر کا وہ وقت آن پہنچا ہے کہ جب کسی بھی دن اگر تقدیر کا بلاوا آجائے توسب نفرت، غصہ اور انتقام ساتھ ہی دفن ہو جاتے ہیں۔کل کون وزیراعظم بنتا ہے، دنیا چھوڑنے والے کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ لیکن نفرت اور انتقام کی آگ میں جلنے والاشخص یا تو جاتے جاتے اپنے اقتدارکی واپسی دیکھنا چاہتا ہے یا پھر اپنے دشمن کی ذلت آمیز شکست۔ نفسیات دان اقتدار کی جنگ میں شریک لوگوںکی نفسیات میں مرنے کے بعد زندہ رہنے کی خواہش کی نفی کرتے ہیں۔ مرنے کے بعد زندہ و جاوید رہنے کی خواہش صرف ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، فلسفیوں اور انسانیت کی فلاح کے لئے کام کرنے والوں کے دلوں میں زندہ ہوتی ہے۔ اقتدار کی جنگ کا شیدائی ’’نیرو‘‘ کی طرح ہوتا ہے کہ جب علم ہو جائے کہ اقتدار اب اس کے نصیب میں نہیں تو روم کو آگ لگاتا ہے اور جلتے ہوئے شہر کو دیکھ کر بانسری بجا رہا ہوتا ہے۔ یہی کیفیت آج نواز شریف کی سیاست میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے جان بوجھ کر ایک ایسے پہاڑ سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے جنگ پورے ملک کو خاکستر میں بدل سکتی ہے۔ غصہ و نفرت میں ڈوبے انسان سے گمراہ کن عقل بھی غلط فیصلے کرواتی ہے اوریار لوگ بھی اسکی اس کیفیت سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ان فائدہ اٹھانے والوں میں کچھ پاکستان کے وہ دانش ور اور سیاست دان شامل ہیں جن کے دماغوں میں’’ 1971ئ‘‘ گھسا ہوا ہے۔ وہ اس ملک میںایک بار پھروہی ’’ تجربہ‘‘ دھرانا چاہتے ہیں اورواقعات کی ترتیب بھی ویسی ہی رکھی گئی ہے۔ شیخ مجیب اور عوامی لیگ نے بھی پہلے جرنیلوں کے خلاف بیان بازی شروع کی اورحالات بگڑنے لگے تو پوری فوج کو نشانے پر لیا۔ دوسری بار یہ تجربہ’’ تحریک طالبان پاکستان‘‘ کے ذریعے دہرایا گیا۔ پہلے جرنیلوں کو مجرم ٹھہرایاگیا اور پھر پوری فوج کے خلاف فتویٰ بازی کی گئی۔ لیکن کوئی دانش ور نوازشریف کو یہ کیوں نہیں بتاتا کہ جب بنگلہ دیش والا تجربہ وزیرستان میں دہرانے کی کوشش کی گئی تھی توبے شک نعرہ ’’شریعت ‘‘کا تھا، ملک بھر سے خود کش بمباربھی ’’جنت ‘‘کے حصول کے لئے میسر تھے، بھارت اور دیگر ممالک سے’’ سرمایہ‘‘ بھی ملتا تھا، افغانستان میں ’’پناہ گاہیں‘‘ بھی تھیں،لیکن ان سب کے باوجود یہاں ’’بنگلہ دیش ماڈل‘‘ کامیاب نہ ہوسکا۔ یہی ماڈل 2005ء میں نواب اکبر بگٹی کے سانحے کے بعد بلوچستان میں اپنایا گیاتھااور بلوچستان میں تو مزاحمت کی تاریخ بھی پچاس سال پرانی تھی مگر وہاں بھی یہ ناکام ہوا۔ نوازشریف جس تصادم کی طرف پاکستان کے اس خطے کو لے جا رہے ہیں، اس کے بارے میں جان لیں کہ جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا قصائی کہا جاتا تھالیکن اسے بھٹو نے آرمی چیف لگایا، بلوچستان میں قتل و غارت کے لیئے بھیجا،اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے اسے اپنا سیکرٹری جنرل بنایااور گورنر پنجاب لگایالیکن کسی نے کوئی احتجاج نہ کیا۔ وہ جنرل اے کے نیازی، کہ جس کی ہتھیار ڈالنے کی تصویر دکھائی جاتی ہے،جب قید سیرہائی کے بعد لاہورواپس آیا تو اس کے قبیلے کے لوگ اسے لاہور ایئرپورٹ سے ہار پہنا کر جلوس کی صورت میانوالی لے کر گئے اور جب 1977ء میں بھٹو کے خلاف مہم چلی تو وہ پی این اے کے جلسوں کا مقبول ترین مقرر تھا۔پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے دیہات ایسے ہیں جہاںآج بھی برطانیہ کے لئے لڑ کر ’’وکٹوریہ کراس‘‘ لینے والوں کا احترام کیا جاتاہے، جہاں اپنے ملک میںہی آپریشن کے دوران ،وزیرستان اور بلوچستان میں جانیں دینے والے افسران اور سپاہیوں کا جنازہ لوگ جوق در جوق پڑھنے آتے ہوں۔ ایسے ملک میں نواز شریف کو حقیقت کا بالکل ادراک نہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر گھر پھونک کر تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ مشرقی پاکستان نہیں ہے جہاں پر تمام سپاہی اجنبی اور ایک ہزار میل دور سے آئے تھے۔ یہاں جو کوئی ہے وہ اور اس کا خاندان اسی سرزمین پر رہتا ہے۔اس نے یہ زمین چھوڑ کر بحیرہ عرب میں چھلانگ نہیں لگانی۔ دوسری تلخ سچائی یہ ہے کہ نون لیگ میں کوئی سرفروش انقلابی ہے اور نہ ہی جنت کی آرزووالا مجاہد۔ تاریخ میں روم کو آگ لگاکر بانسری بجانے والے ’’نیرو‘‘ کو جب پکڑا گیا تو اس سے یہ فرمائش کی گئی تھی کہ اپنی قبر خود کھودے۔پھراسے کہا گیا اب اپنے ہی خنجر سے خود کو قتل کرو اوراسکے بعد اس پر منوں مٹی ڈال دی گئی۔