بدامنی سے عبارت افغان تاریخ میں آج امن کا باب لکھا جا رہا ہے۔اس معاہدے کی روشنائی میں کئی لاکھ افراد کا خون شامل ہے‘ یہ جس کاغذ پر لکھا جا رہا ہے وہ جانے کتنے بے گناہوں کی کھال سے بنا ہے۔قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان اور امریکہ کے مابین تاریخی امن معاہدہ اس بات کی دلیل ہے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے جنگ بند کرنا پڑتی ہے۔فریقین نے اپنے اپنے دوستوں کو معاہدے کی تقریب میں مدعو کیا ہے۔پاکستان ‘ترکی‘ سعودی عرب ‘ ایران ‘ متحدہ عرب امارات‘ جاپان‘ جرمنی‘ انڈونیشیا ‘ چین‘ ملائیشیا‘ انگلینڈ‘ فرانس‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ ازبکستان‘ ترکمانستان‘ تاجکستان اور قازقستان کے وزرائے خارجہ کو دعوت نامے پہنچا دیے گئے ہیں۔ معاہدے کی تقریب بین الاقوامی سیاست اور معاشی تبدیلیوں کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے ‘یوں لگتا ہے پوری دنیا امن کی بحالی کی چھوٹی سی روشنی کو پوری دنیا میں پھیلے تشدد کے اندھیرے کو ختم کرنے کے لئے پھیلانا چاہتی ہے۔اس لئے عالمی ادارے اور بین الاقوامی تنظیمیں اس موقع پر اپنے نمائندے بھیج رہی ہیں۔اقوام متحدہ‘ نیٹو‘ شنگھائی تعاون تنظیم‘ او آئی سی‘ سارک‘ یورپی یونین اور ورلڈ بنک کے سربراہ تقریب میں شرکت کریں گے۔ طالبان نے بعض قوتوں کی مخالفت کے باوجود فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ خالد مشعل‘ عالمی سطح پر متحرک اسلامی جماعتوں کے سربراہوں اور جید علماء کرام کو بھی مدعو کیا ہے۔یورپ‘ پاکستان اور ایران میں موجود افغان مہاجرین کے نمائندوں کے علاوہ امریکی خواہش پر افغانستان کی سیاسی جماعتوں کے سربراہ بھی اس تقریب میں شامل ہوں گے۔ کچھ عرصہ قبل افغان طالبان نے ایک آسٹریلوی پروفیسر ٹموتھی ویکس کو امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں رہا کیا تھا۔ دو گورے پروفیسروں کے بدلے امریکہ نے انس حقانی اور دیگر سات طالبان رہنما رہا کئے تھے۔ ٹموتھی ویکس ( weeks)افغان طالبان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر چکے ہیں اور اب یہ خود کو دینی تبلیغ کے کاموں میں مصروف رکھے ہوئے ہیں۔پروفیسر ٹموتھی نے رہائی کے بعد امن معاہدے کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ طالبان نے انہیں بھی تقریب میں مدعو کیا ہے۔ٹموتھی ویکس دوحا پہنچے تو انس حقانی نے ان کا استقبال کیا۔ہمارے دوست نے بتایا ہے کہ امن معاہدے کے وقت امریکہ 5ہزار طالبان کو جبکہ افغان طالبان 1000امریکی اور اتحادی قیدیوں کو رہا کریں گے۔ افغانستان‘ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے لئے افغانستان میں امن معاہدہ بہت اہم معاملہ ہے لیکن امریکہ کی نظر میں یہ ایک نقصان دہ کاروبار بند کرنے سے زیادہ اہم نہیں۔ انسانی ہلاکتوں اور گولہ بارود کے استعمال پر دنیا کی تنقید اگر امریکہ پر اثر انداز ہوتی تو کوریا‘ ویتنام ‘ عراق ‘ افغانستان‘ لیبیا اور سینکڑوں دوسری جگہوں پر فوجی آپریشن کبھی نہ ہوتے۔افغانوں کی صدیوں سے موجود پسماندگی نے انہیں یہ احساس دیا ہے کہ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں‘ وہ ایسی بلی بن چکے ہیں جو کمرے میں بند ہے اور اس کے مدمقابل نے ہر بار فرار کے راستے بند کر دیے۔ جغرافیہ قوم کا مزاج بناتا ہے۔افغانوں کے پاس سمندر ہوتا تو وہ کئی بار مفتوح ہوتے۔ ان کے پاس پہاڑ اور ویرانے ہیں جو گوریلہ جنگ کی فطری تربیت گاہ ہیں۔ انگریز‘ روسی اور امریکی جہاں گئے وہاں کے سماج کو تہہ و بالا کر دیا۔ فلپائن اور کوریا میں جبری طور پر جسم فروشی کو رواج دیا گیا۔ ایسی کچھ معمر خواتین ظلم کی کہانیاں سنانے کے لئے آج بھی موجود ہیں۔ افغانستان میں اتحادی فوجی بیرکوں سے نہ نکل سکے ۔وہاں قحبہ خانے کھل سکے نہ شراب کی دکانیں۔ قابض اتحادی فوجی جتنا عرصہ رہے سہمے رہے‘ افغانوں نے اپنے سُکھ کیا دینے تھے وہ تو امریکیوں کے سامنے اپنے دکھوں کو بھی سرنگوں کرنے کو تیار نہ ہوئے۔جن چند افغان رہنمائوں نے اپنی قوم کی خودداری کو فروخت کیا وہ حامد کرزئی کی شکل میں اپنے لئے جگہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ دنیا نے تین طرح کے قبائلی معاشروں کو دیکھا ہے۔ ایک وہ جو دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ جنگلوں میں رہتے ہیں۔ ایک وہ جو صحرائوں کی وسعتوں میں گم رہنے کے عادی ہیں اور تیسرے وہ جو پہاڑی‘چٹانی اور جغرافیائی تنہائی میں پرورش پاتے ہیں۔ تینوں میں مشترک چیز یہ ہے کہ انہیں اپنی آزادی سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں۔ انڈونیشیا اور ایمازون کے جنگلوں میں رہنے والا قبائلی درختوں کے جھنڈ سے باہر نکلنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ عرب اور افریقہ کے صحرائوں میں رہنے والوں کو ریت دکھائی نہ دے تو وہ سمجھتے ہیں قیامت آ گئی۔افغان ایسے ہی سوچتے ہیں کہ کوئی ان کے علاقے میں آ گیا تو وہ ان کی شناخت چھین لے گا۔افغان تنازع کا تجزیہ زیادہ تر مغربی ذرائع ابلاغ کی فراہم کردہ معلومات یا پھر مزاحمتی شخصیات کے خیالات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ایسے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تجزیے میں جم کر یہ بتایا ہو کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو افغان کچھ بھی بچا نہ پاتے‘کچھ بھی۔ افغانستان میں ایسے لوگ بھارتی اور امریکی سرپرستی میں پرورش پاتے رہے ہیں جن کا خیال ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی تباہی میں کردار ادا کیا‘ یہ لوگ ڈیورنڈ لائن اور پختون قوم پرستی کی ایسی تشریح کرتے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوں‘ ان کو کچھ ناسمجھ ہم خیال مل جاتے ہیں لیکن پاکستان کی ایک طویل شراکت سچے دانشوروں سے نیا تجزیہ مانگتی ہے۔ پاکستان نے سوویت یونین دور میں جو جہادی پالیسی اختیار کی کیا ہم امریکہ کو انکار کر سکتے تھے؟ افغانستان میں کردار کے حوالے سے پاکستان کی سرکاری پالیسی ہمیشہ سپر طاقتوں کے جبر کا نتیجہ رہی لیکن افغانستان کی آزادی کی محافظ قوتوں سے پاکستان کے خوشگوار تعلقات کا بحال رہنا کیا معمولی بات ہے؟ آج امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں مرکز توجہ امریکہ اور طالبان ہوں گے لیکن عالمی اداروں‘ عالمی شخصیات اور عالمی برادری کے نمائندوں تک یہ پیغام ضرور جائے گا کہ پاکستان خطے کے فیصلوں میں کلیدی کردار ہے۔